حکمرانی کا شوق اور اقتدار کے مزے لوٹنا ایک ایسی خواہش اور تمنا ہے جو بہت سارے لوگوں کے دلوں میں مچلتی رہتی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں اور ان سے تعلق رکھنے والے مرکزی راہنما، سیاستدان، ریٹائرڈ جرنیل اور بیوروکریٹ اور ممبران پارلیمنٹ وغیرہ خاص طور پر اقتدار کے مزے لوٹنے اور ہر طرح کی سہولیات اور آسائشیں حاصل کرنے کے لیے ہر دم کوشاں رہتے ہیں۔ تاہم اقتدار کا حصول آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے جہاں بڑے بڑے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں وہاں اس کے حصول کے بعد اس کے تحت حاصل حکمرانی کے اُمور چلانا اور ماضی میں کیے جانے والے اپنے دعوؤں اور نعروں کو عملی جامہ پہنانا اور عوام کی توقعات پر پورا اُترنا اور بھی زیادہ مشکل کام، آزمائش اور امتحان ہے، دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکمرانی کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے بلند ویژن کے ساتھ ہر لمحے، ہر گام، دانائی اور بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک لحاظ سے تنے ہوئے رسے پر چلنا پڑتا ہے۔ ہماری بدنصیبی اور بدقسمتی ہے کہ ہمیں ایسے حکمران اور ایسی حکومتیں نصیب ہوتی رہی ہیں جنہوں نے نہ تو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے کچھ کام کیا نہ ہی ملک میں پائی جانے والی بد عنوانی، رشوت ستانی، اقربا پروری جیسی معاشرتی بُرائیوں اور مہنگائی در مہنگائی جیسے عفریت کو ختم کرنے میں کوئی پیش رفت دکھائی۔ ماضی کی حکومتوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ اس ضمن میں ان کا کیا کردار رہا ہے۔ لیکن پہلے تحریک انصاف کی مرکز میں اور پنجاب اور خیبر پختونخوا صوبوں میں پچھلے سوا تین سال سے برسر اقتدار حکومتوں بالخصوص وزیرِ اعظم جناب عمران خان کی حکومت کی کارکردگی کا ایک اجمالی سا جائزہ لیا جاتا ہے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جناب عمران خان کو برسر اقتدار لانے میں کئی حلقوں کا کردار رہا ہے۔ اس کے ساتھ اُن کے بدعنوانی کو جڑوں سے ختم کرنے، تبدیلی لانے اور نیا پاکستان بنانے کے نعروں سے بھی یقینا عوام بالخصوص نوجوان نسل اور اشرافیہ کے بعض طبقے بڑی تعداد میں متاثر تھے۔ یقینا ان لوگوں نے جناب عمران خان کے حق میں ووٹ ڈالے ہونگے لیکن اتنا کچھ کافی نہیں تھا، اُن کے لیے اقتدار کا راستہ ہموار کرنے کے لیے غیر مرئی قوتوں اور بقول شخصے خلائی مخلوق نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ اس طرح انتخابی نتائج اس انداز سے سامنے آئے کہ تحریک انصاف کے لیے وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومتیں قائم کرنا سہل ہوگیا۔ اگست 2018ء میں ان حکومتوں کے قیام سے بعد اب تک تقریباً سوا تین سال یا 39ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس دوران میں پنجاب، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتوں کو چھوڑ کر اگر وفاق میں وزیر اعظم جناب عمران خان کی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو سوائے اس کے کہ اس کے بار ے میں صفر +صفر+صفر = صفر کہا جائے، اس کے علاوہ اور کوئی جواب نہیں بنتا۔
یہ حقیقت ہے کہ جناب عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد بلکہ اُن کے برسر اقتدار آنے سے قبل بھی بہت سارے حلقوں نے اُن سے یہ توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ وہ پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست کا روپ دے کر یہاں کے عوام کے لیے آسانیاں ہی پیدا نہیں کریں گے بلکہ پاکستان کو ایک ایسی مملکت بنائیں گے جس میں ریاستِ مدینہ کا رنگ جھلک رہا ہوگا۔ لیکن اب تک ہوا کیا ہے؟ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے یقینا دکھ ہوتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جناب عمران خان کے دورِ حکومت میں مملکت اور ریاست پاکستان کی جو درگت بنی ہے، عوام کی تکالیف میں جو بے پناہ اضافہ ہوا ہے، غربت اور مہنگائی در مہنگائی نے جس طرح ملک میں پنجے گاڑھے ہیں، اس کی قیامِ پاکستان سے لے کر پچھلے ادوارِ حکومت تک کوئی مثال نہیں ملتی۔ بلاشبہ اس دور میں ملک بد ترین معاشی بدحالی اور ابتری کا شکار ہی نہیں ہوا ہے بلکہ ملکی اور غیر ملکی قرضوں میں بے پناہ اضافہ بھی ہوا ہے اس کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں جہاں ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی ہے وہاں اشیائے صرف چینی، آٹے، چاول، دالوں، گھی، کوکنگ آئل، صابن، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں، پیٹرولیم مصنوعات، پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کے نرخوں اور بجلی اور گیس کے بلوں میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ بلاشبہ یہ سب کچھ ایسا نہیں ہے جسے اچھی حکمرانی کا حاصل سمجھا جائے یقینا یہ نا اہلی، نالائقی، کم فہمی، ناقص منصوبہ بندی اور گہری سوچ و بچار سے عاری فیصلوں اور پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوتی، نعرے یہ لگائے گئے تھے، وعدے یہ کیے گئے تھے کہ صاف چلی اور شفاف چلی، تبدیلی آئے گی، بد عنوانی اور رشوت ستانی کا خاتمہ ہوگا، کشکول توڑ دیا جائے گا وغیرہ۔ لیکن ہوا کیا؟ چینی اور آٹا مافیاز نے حکومت کی غلط پالیسیوں اور ناقص منصوبہ بندی کے تحت اربوں کھربوں روپے عوام کی جیبوں سے بٹور لیے اور سوائے خالی خولی دھمکیاں دینے کے ان کا کوئی بال بیکا بھی نہ کر سکا۔ کب سے کورس کی صورت میں یہ گردان دہرائی جا رہی ہے کہ ماضی کی حکومتیں ساری خرابیوں کی جڑ ہیں۔ بجلی کی پیداوار پچھلے دور میں بڑھی ہے اور اس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور صنعتوں اور گھریلو استعمال کے لیے وافر بجلی دستیاب ہوئی ہے لیکن قابل گردن زدنی سابقہ حکومت ہے کہ اس نے بجلی کے کارخانے لگا کر تقریباً تیرہ ہزار میگا واٹ اضافی بجلی، بجلی کے قومی نظام میں شامل کیوں کی؟ پچھلے دور میں قدرتی گیس کی کمی کو دور کرنے کے لیے قطر سے ایل این جی کی درآمد کے معاہدے کئے گئے اور ملک میں بروقت اس کی درآمد کو یقینی ہی نہ بنایا گیا بلکہ پورے ملک میں اس کی ترسیل کا نظام بھی قائم کیا گیا۔اس کے مقابلے میں موجودہ صاحبانِ اقتدار سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ جن اوقات میں ایل این جی کی خریداری کے سستے سودے کیے جا سکتے تھے یہ اُن کے طے کرنے میں ناکام رہے اور مہنگے داموں میں ایل این جی کی خریداری کے جہاں سودے کیے وہاں ملکی ضرورت کے مطابق 14کارگوز منگوانے کے بجائے صرف 12کارگوز کے سودے کرنے میں بمشکل کامیاب ہو سکے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ابھی جب کہ سردیوں کا پوری طرح آغاز بھی نہیں ہوا ہے ملک بھر میں گیس کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں ملک کتنا پیچھے چلا گیا ہے اس کا صحیح اندازہ آنے والے وقتوں میں ہوگا۔ پچھلے دور میں ملک میں معاشی ترقی جس رفتار سے ہو رہی تھی اور گروتھ ریٹ جس سطح پر پہنچ چکا تھا اسے آگے لے کر جانے کے بجائے آدھا سے بھی کم کر دیا گیاہے۔ 2017-18ء میں گروتھ ریٹ پانچ فیصد سے اُوپر تھا جو پچھلے مالی سال کے اختتام پر بمشکل 2.5فیصد کی سطح پر پہنچا ہے۔ یہی حال ترقیاتی منصوبوں کا ہے۔ سی پیک منصوبوں پر کام بند یا انتہائی سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ سے چین کی ناراضی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے ساتھ جناب عمران خان سمیت تحریک انصاف کے راہنماؤں نے مخالفین کے ساتھ بد زبانی، بدکلامی اور الزام تراشی کے جس کلچر کو پروان چڑھا رکھا تھا اُسے اس عرصے میں مزید تقویت ملی ہے۔ اگلے دن پارلیمنٹ میں جس طرح قانون سازی کی گئی اور اپوزیشن کی آواز کو دباتے اور اس کے مؤقف کو رد کرتے ہوئے جس طرح 33بلوں کی منظور لی گئی ہے کیا اسے اچھی حکمرانی کا نمونہ سمجھا جا سکتا ہے؟ قطعاً نہیں۔ اس کے جو اثرات آنے والے وقت میں مرتب ہونگے انہیں ختم کرنا یقینا آسان نہیں ہوگا۔