لاہور ،سینئر تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا کہ اگر حکومت جلسہ روکنا چاہے گی تو پھر اس کا ری ایکشن آئے گا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ حکومت جلسہ کرنے کی اجازت دے دی گی ۔وہ پروگرام لائیو ود نصراللہ ملک میں میزبان نصراللہ ملک سے گفتگو کررہے تھے ۔انہوں نے کہا کہ کورونا کے بارے میں حکومت کا دعویٰ تو ہے کہ ہم نے بہت اچھے اقدام کئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا حکومت کی کوئی ایسی پالیسی ہی نہیں تھی کہ وہ کورونا کو روک پاتے ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اللہ کا ہی ہم پر کرم تھا کہ ہمارے ملک میں ہلاکتیں نہیں ہوئیں ۔ عام مارکیٹوں میں چلے جائیں کہیں بھی کوئی بھی ایس او پیز کو فالو نہیں کرتا ۔ سب نارمل روٹین میں ہی لائف گذار رہے ہیں ۔ یہ کہنا کہ جلسے سے کورونا پھیل جائے گا ایسا نہیں ہوگا ۔
سوشل میڈیا پر جس قسم کے کمنٹس دیکھنے کو ملتے ہیں ان پر دکھ ہوتا ہے کوئی بھی تمیز کے دائرے میں رہ کر بات نہیں کرتا ۔ پی ٹی آئی والے بدزبانی کرتے تھے لیکن اب سب ہی کرتے ہیں جو بہت ہی افسوسناک ہے ۔
میرا میڈیا سے تعلق ہے لیکن میں ان چیک میڈیا کو نہیں مانتا ہمیں آئین کے مطابق چلنا چاہئے اگر نوازشریف کی تقریر پر آئین منع کرتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن یہ نہیں جنرل مشرف کا انٹرویو چلایا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں پر لفافے کے الزام لگ رہے ہیں جو بہت ہی افسوسناک ہے ہم کردار کے لحاظ سے اتنا بگڑچکے ہیں کہ کسی پر بھی کوئی بھی الزام لگا دیتے ہیں۔ میرے نظریئے کی وجہ سے بہت ساطبقہ مجھے گالیاں دیتا ہے ۔میڈیا کا کام یہ ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ ہمارا معاشرہ کس طرف جارہا ہے ہمارا معاشرہ عجیب سا بن گیا ہے ہمیں ہر طرف جانور ہی جانور نظر آرہے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں کریکٹر بلڈنگ نہیں ہورہی ۔
پروگرام میں موجود تجزیہ کار افتخار احمد نے کہا ہے کہ پشاور میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہوگا ۔ اگر حکومت نے جلسے کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی تو حکومت کے لئے مشکلات بڑھ جائیں گی ۔
اعظم مارکیٹ ،شاہ عالم مارکیٹ ،اچھرہ بازار چلے جائیں تو جلسے سے زیادہ لوگ وہاں پر نظر آئیں گے حکومت کی یہ لاجک فضول ہے کہ کورونا کی وجہ سے جلسہ نہیں ہونا چاہئے ۔ حکومت پی ڈی ایم کے جلسوں سے گھبرا گئی ہے ۔ اس جلسے میں عوام کی بہت زیادہ تعداد متوقع ہے ۔ کاش کوئی ایسا قانون ہوتا کہ ہم توہین کا مقدمہ دائر کرسکتے پاکستان میں پہلے ہی سینکڑوں مقدمات التواکا شکار ہیں ۔
کیا صحافی انسان نہیں کیا وہ اس کیٹگری میں نہیں آتے جن میں ڈاکٹر وکیل آتے ہیں ۔ ہم سب جانبدار ہوچکے ہیں صرف صحافیوں کو جانبدار کہنا درست نہیں ہے ۔ بطور صحافی ہمیں رپورٹنگ میں ایک بیلنس رکھنا چاہئے ۔ اگر کسی پر پابندی لگانی ہے تو کسی ایک بندے پر پابندی نہ لگائیں قانون تبدیل کردیں ۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو خیال ہے کہ کسی کی تقریر سے کوئی فرق پڑتا ہے تو یہ غلط ہے ہر بندے کے پاس موبائل ہے ٹی وی پر تقریر بعد میں آتی ہےاور موبائل پر پہلے آتی ہے ۔ ٹی وی پر پابندی لگائی جاسکتی ہے لیکن موبائل پر کیسے لگے گی ۔ ہر صحافی کو لفافہ کہہ دینا یہ بہت غلط بات ہے ۔ صحافیوں کی توہین کی جارہی ہے ہمیں گالیاں دی جارہی ہیں جو ہم پر تنقید کرتے ہیں پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی سیاستدان کا کسی مرد یا خاتون کا کوئی منفی نام رکھا جارہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اخلاقی طورپر بہت گر چکے ہیں۔ یہ کام سب سے پہلے شیخ رشید نے کیا تھا انہوں نے بے نظیر بھٹو کے بارے میں بہت کچھ کہا جس کو کسی نے پسند نہیں کیا ۔ لوگوں کے ہاتھ میں سوشل میڈیا چلا گیا ہے تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا ہورہا ہے ۔ہمارے دور میں ایسی جرنلزم نہیں تھی یہ پتہ نہیں کیا ہورہا ہے ہمارے دور میں جب تک دوسرے فریق کا موقف نہیں آتا تھا خبر چھپا ہی نہیں کرتی تھی ۔
تجزیہ کار منصور علی خان نے کہا کہ جلسوں سے کورونا پھیلتا ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔اگر کوئی پلاننگ نہیں یا کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کی جارہی یا عوام اس پر توجہ نہیں دے رہے تو پھر اس میں کسی کی کوتاہی نہیں ہے کورونا تو پھر ایسے حالات میں پھیلے گا ۔ حکومت کورونا کو استعمال کررہی ہے تاکہ اپوزیشن جلسہ نہ کرے ۔
انہوں نے کہا حکومت چاہتی ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسے ناکام بنائے جائیں ۔ کئی سیاستدان اور پارلیمنٹیرینز کورونا کو ایزی لے رہے ہیں اس پر افسوس ہے ۔ عوام کی جان اور صحت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کورونا پر آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں ۔ ہم پیمرا کے ایک آرڈر کے بارے میں پارٹی ہیں اگر ہم نوازشریف کو اپنے پروگرام میں نہیں لے سکتے تو یہ حکم تو پھر ہمارے لئے ہے ۔
میری اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست ہے کہ اسحاق ڈار اور نوازشریف پر الطاف حسین جیسی پابندی لگا دیں ۔صولت مرزا کا ویڈیو کلپ احسان اللہ احسان کا کلپ کیسے ٹی وی پر آگیا ۔ پیمرا کا جب دل چاہتا ہے سوجاتا ہے جب چاہے جاگ جاتا ہے ۔ ایک قانون بنا دیا جائے کہ اب سونا ہے اوراب جاگنا ہے ۔ حکومت لفافہ صحافی کہتی رہے ہم اپنا کام کرتے رہیں گے میں اپنی جرنلزم نہیں چھوڑوں گا چاہے جو مرضی کہتے اور کرتے رہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ میری جرنلزم گندگی میں ہی پل بڑھ رہی ہے یوٹیوب پر ایسے ایسے گندے تھم نیل لگتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔ آج کل لوگ اس گند سے سیکھ رہے ہیں ۔ میں نے شیخ رشید کو اپنے پروگرام میں بلانا چھوڑ دیا کیونکہ مجھے احساس ہوا کہ یہ لوگوں کے بارے میں بری بات کرتے ہیں ۔سوشل میڈیا کی گندگی ہم سب نے پکڑنا شروع کردی ہے جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ٹی وی پر بھی نظر آرہا ہے ۔