نیو یارک : سائنسدانوں نے ڈی این اے کی تدوین (ایڈٹ) کا نیا طریقہ دریافت کرلیا ہے جس سے دماغ کے متاثرہ جینز کو ٹھیک کرنے سمیت ناقابل علاج سمجھے جانے والے امراض کے علاج کو ممکن بنایا جاسکے گا۔ میڈیارپورٹس کے مطابق یہ دعویٰ امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے دوران سامنے آیا۔ اس پیشرفت کو جینیاتی دنیا کا سنگ میل قرار دیا جارہا ہے جس کی مدد سے بینائی سے محروم چوہوں کی بینائی کو جزوی طور پر بحال کردیا گیا ہے، یہ وہ عارضہ ہے جو انسانوں کو بھی لاحق ہوتا ہے۔اس سے قبل طبی ماہرین آنکھوں، دماغ، دل اور جگر کے ٹشوز کے ڈی این اے کو بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔مگر اس نئی تکنیک کے ذریعے ماہرین کو پہلی بار ایسا کرنے کا موقع ملا اور اس سے عمر بڑھنے کے ساتھ لاحق ہونے والے متعدد امراض کے نئے علاج کو مرتب دینے میں بھی مدد ملے گی۔
سالک انسٹیٹوٹ کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم اس دریافت ہونے والی ٹیکنالوجی کے حوالے سے کافی پرجوش ہیں کیونکہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا اور اس کا اطلاق کافی شعبوں میں ہوسکے گا۔بالغ جسم کے بیشتر ٹشوز تقسیم نہیں ہوتے جس کی وجہ سے سائنسدانوں کے لیے ڈی این اے میں تبدیلی لانا بہت مشکل ثابت ہوتا تھا مگر اب پہلی بار وہ ان تقسیم نہ ہونے والے خلیات میں داخل ہوکر ان کے ڈی این اے کی شناخت کے قابل ہوگئے ہیں۔محققین کا کہنا تھا کہ اب کوئی مرض لاعلاج نہیں رہے گا، کیونکہ پہلی بار ہمیں ان بیماریوں کے علاج کا خواب دیکھنے کا موقع ملا جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اور یہ واقعی پرجوش کردینے والا ہے۔اس تکنیک کو HITI کا نام دیا گیا ہے جو کہ گزشتہ سال کی سب سے بڑی طبی تکنیک کریسپر پر مبنی ہے۔