گلگت :طویل عرصے تک دنیا بھر کی بلند چوٹیوں اور پہاڑوں پر پاکستان کا پرچم سربلند کرنے والے معروف کوہ پیما حسن سدپارہ کینسر کے عارضے کے سبب 53 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔حسن سدپارہ ماؤنٹ ایورسٹ سمیت دنیا کی چودہ میں سے آٹھ بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والے پہلے پاکستانی تھے اور کافی عرصے سے کینسر سمیت متعدد عارضوں میں مبتلا تھے۔
وہ راولپنڈی کے نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے اور وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر انہیں علاج کیلئے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔حسن سدپارہ کے بیٹے نے حکومت سے والد کے بہتر علاج کے لیے کراچی بھیجنے کے بھی اپیل کی تھی۔دوران علاج آج صبح حسن سدپارہ کی حالت بگڑ گئی اور دوپہر میں وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔
معروف کوہ پیما کے بیٹے عارف نے ڈان نیوز سے گفتگو میں حکومت سے اپیل کہ ان کے والد کی میت کو اسکردو لے جانے کے لیے حکومت مدد کرے۔
حسن سدپارہ کون تھے؟سکردو کے قریب واقع گاؤں سدپارہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے حسن سدپارہ نے کوہ پیمائی کا آغاز 1994 میں کیا اور اسی سال پاکستان کی بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
اس کے بعد حسن نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور حکومت کی جانب سے پذیرائی نہ ملنے کے باوجود 1999 میں قاتل پہاڑ کے نام سے مشہور نانگا پربت، 2006 میں گیشا برم ون اور گیشا برم ٹو جبکہ 2007 میں ’براڈ پیک‘ کو سر کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔2007 تک انہوں نے پاکستان میں واقع آٹھ ہزار میٹر سے بلند پانچ چوٹیاں آکسیجن کی مدد کے بغیر سر کر لی تھیں۔
بالآخر 2011 میں انہوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایوریسٹ سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا اور نذیر صابر کے بعد یہ اعزاز حاصل کرنے والے دوسرے پاکستانی بنے۔
وہ پاکستان میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند پانچ چوٹیوں اور ماؤنٹ ایوریسٹ سمیت چھ چوٹیاں سر کرنے والے واحد پاکستانی ہیں۔
کوہ پیمائی کے شعبے میں اعلیٰ کارکردگی پر حکومتِ پاکستان نے حسن سدپارہ کو سنہ 2008 میں تمغۂ حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا تھا۔