لاہور:ڈبلیو ایچ او نے سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کے حوالے سے ملٹی نیشنل تمباکو کمپنیوں کے دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کل تجارت کا 23.1 فیصد ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی حالیہ ایک تحقیق جس کا عنوان "پاکستان میں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کے واقعات پر اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کے لیے ایک کیس سٹڈی " ہے میں کہا ہے کہ مجموعی طور پر جعلی ٹیکس سٹیمپ والے پیکس کی تعداد 1.9 فیصد ہے، اور سمگل شدہ سگریٹ کل کھپت کا 10.7 فیصد ہیں۔
صحت کے عالمی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ نے ٹیکس سے بچنے کے لیے ملٹی نیشنل تمباکو کمپنیوں کی جانب سے استعمال کی جانے والی خرافات اور ہتھکنڈوں کو مسترد کر دیا ہے۔
ماضی میں پاکستان میں غیر قانونی تجارت کے حجم پر کئی مطالعات ہوئے تھے لیکن وہ ملک میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے نفاذ سے پہلے کیے گئے تھے (جولائی 2022)۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ان مطالعات سے پتہ چلا کہ پاکستان میں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت 9 سے 17 فیصد تک ہے لیکن انہوں نے جعلی معاملے کی حد کا اندازہ نہیں لگایا۔رپورٹ میں پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ 2015-16 میں مقامی طور پر تیار کردہ سگریٹ پر ٹیکس چوری 53.8 ارب روپے تھی۔ شعبے کیا جانب سے نے پیداوار کو کم رپورٹ کرکے 38.9 ارب (72.7فی صد) روپے بچایا۔ جبکہ 14.6 ارب (27.3فی صد) ٹیکس چوری سے بچایا گیا۔
تمباکو مخالف کارکنان حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ تمباکو کے ٹیکس کو خوردہ قیمت کے 70 فیصد تک بڑھا دیں۔ کمپین فار ٹوبیکو فری کڈزکے کنٹری ہیڈ ملک عمران احمدنے کہا 60 فی صد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تمباکو کے استعمال کی برائیوں سے بچائے۔ انہوں نے کہا کیونکہ اس اقدام سے سال کے آخر تک 200 بلین روپے سے تجاوز کرتے ہوئے اضافی ریونیو پیدا ہونے کی توقع ہے