سانحہ 9 مئی پاکستان کا نائن الیون ہے، پی ٹی آئی شرپسندوں کو کسی صورت معافی نہیں ملے گی: احسن اقبال 

01:06 PM, 21 May, 2023

نیوویب ڈیسک

اسلام آباد : وفاقی وزیرمنصوبہ بندی، ترقی وخصوصی اقدامات پروفیسراحسن اقبال نے 9 مئی کے واقعات کو پاکستان کی مسلح افواج کیلئے امریکہ کے نائن الیون کے واقعہ کی طرح انتہائی سنگین،ناقابل برداشت اور ناقابل معافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دفاعی تنصیبات اور قابل فخر علامات پر حملہ کرنے والے بلوائیوں کے خلاف شواہد کی بنیاد پر کارروائی کرکے انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائےگی ، سول علاقوں میں حملہ آور شرپسندوں پر سول عدالتوں میں اور دفاعی اداروں و تنصیبات پر حملے کرنے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

  

اے پی پی کو خصوصی انٹرویو میں احسن اقبال نے کہا کہ یہ نہ تو کوئی انتقام اور نہ ہی سیاست ہے ، یہ پا کستان کا سوال ہے ، پاکستان کی معیشت میں بتدریج خود کفالت اور استحکام لانے کی راہ پر گامزن ہیں ۔ عوام کو ریلیف اور ترقیاتی بجٹ میں اضافہ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہیں ۔عمران خان نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور سی پیک کی تباہی ان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ 

وفاقی وزیر پروفیسراحسن اقبال نے 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے واقعات پاکستان کی مسلح افواج کیلئے امریکہ کے نائن الیون واقعہ کے ہم پلہ ہیں ، ایک سیاسی جماعت کے بلوائیوں نے پاکستان کے تاریخی ورثہ اور قومی سلامتی کے اداروں، جناح ہاؤس جو کور کمانڈر کا گھر ہی نہیں بلکہ بانی پاکستان کا ورثہ بھی تھا، پر حملہ کیا۔

اسی طرح انہوں نے کرنل شیر خان کے مجسمہ کو ہی نہیں توڑا بلکہ جرات و بہادری کی اس علامت کو توڑا ہے جس کا انہوں نے کارگل کے محاذ پر مظاہرہ کیا تھا اور اس کا اعتراف ہمارے دشمنوں نے بھی کیا۔ اگر انہوں نے 1965ء کے جنگی جہازوں کو توڑا ہے تو انہوں نے پاک فضائیہ کے قابل فخر برانڈ پر حملہ کیا ہے، اگر انہوں نے چاغی پہاڑی پر حملہ کیا ہے تو یہ حملہ پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے والی قوت کی ایک علامت پر حملہ ہے اور اس سے بڑھ کر ہمارے شہیدوں کی یادگاروں پر پتھر اور لاٹھیاں برسائیں،ہمارے شہیدوں کو بے توقیر کرکے شہیدوں کی توہین کی گئی ہے ،یہ سب کرکے انہوں نے کس کو خوش کیا ہے ؟

  

انہوں نے یاد دلایا کہ امریکہ میں کیپٹل ہل پر حملہ ہوا تو کیا انہوں نے حملہ آوروں کو معاف کیا؟ بالکل نہیں ،ان کو عبرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں برطانیہ میں سڑکوں پر لوٹ مار اور بلوا گیری ہوئی تو کیا برطانوی حکومت نے ان کو معاف کیا ؟بالکل نہیں، ان کیلئے حکومت نے رات کو بھی عدالتیں لگائیں اور انہیں مثالی سزائیں دیں تاکہ آئندہ ایسی کوئی جرأت نہ کرسکے، لہٰذا یہاں یہ لوگ بھی کسی رحم کے مستحق نہیں ہیں، انہوں نے بھی وہی کام کیا، اپ کو کون اس کی معافی دے گا؟ ان کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو امریکہ نے اپنے مجرموں کے ساتھ کیا،جو برطانیہ نے اپنے مجرموں کے ساتھ کیا۔اس میں کوئی انتقام نہیں ہے اور نہ کوئی سیاست ہے ۔ یہ پاکستان کا سوال ہے ۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ان شرپسندوں کے خلاف شواہد کی بنیاد پر کارروائی ہوگی ،کوئی بے گناہ بلاوجہ سزاوار نہیں ہوگا اور کوئی گناہ گار سزا سے نہیں بچے گا۔انہوں نے کہاکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ وقت کی بھی ضرورت ہے اور ملک کی بھی ضرورت ہے ۔اسں لئے ان کے خلاف شواہد کی بنیاد پر کارروائی ہوگی۔انہوں نے کہاکہ جن لوگوں نے سول علاقوں میں تخریب ودہشت گردی کی ہے ان کے خلاف سول قانونِ کے مطابق مقدمے چلیں گے،جن علاقوں میں فوجی تنصیبات پر حملے کئے گئے ان کے خلاف آرمی قانون کے تحت کارروائی ہوگی کیونکہ آ رمی کا قانون بھی پاکستان کا قانون ہی ہے ۔قانون کے مطابق انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے گی ۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ان افسوسناک مناظر کو کس نے استعمال کیا ؟،

پی ٹی آئی کےدہشت گردی کے ان واقعات پرپاکستان کے دشمن جشن مناتے رہے اس طرح ہم نے اپنے دشمنوں کو خوش کیا اور اپنی قوم کی آ نکھوں کو اشکبار کیا ۔ قومی معاشی حالات بارے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیرنے کہا کہ اتحادی جماعتوں نے جب حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی تو خزانہ خالی تھا اور اس کا اقرار خود پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے بھی کیا تھا، یکم اپریل 2022ء کو جب وزارت خزانہ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگراموں کیلئے آخری سہ ماہی کے فنڈز ریلیز کرنے جا رہی تھی تو متعلقہ وزارت نے فنڈز کے اجراء سے انکار کر دیا، ایسا پاکستان کی 75 سال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ حکومت کے پاس سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگراموں کیلئے فنڈز نہیں تھے، گذشتہ چار سال کے دوران پی ٹی آئی حکومت نے ملک کو تباہ و برباد کر دیا اور معیشت کا بیڑا غرق کیا،جب ہم نے حکومت سنبھالی تو پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اس وقت جشن منا رہی تھی کہ پاکستان چند دنوں کے اندر سری لنکا بن جائے گا لیکن موجودہ حکومت کی بہتر پالیسیوں کے باعث ہم نے ان بحرانوں کا سامنا کیا اور ملک کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے معیشت کی بہتری کیلئے سخت فیصلے کئے جس کے نتائج اب آنا شروع ہو گئے ہیں، ہم نے بہت سے بحران دیکھے ہیں جس میں 2022ء میں بدترین سیلاب آیا جس میں تقریباً ملک کے بیشتر اضلاع کو نقصان پہنچا، پاکستانی معیشت کو تقریباً 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا مگر حکومت نے ان کی بحالی کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے اور مختلف پروگرام شروع کئے ہیں، امید ہےکہ آئندہ ایک ،دو سال میں اس تباہی اور اس کے اثرات پر نمایاں طورپر قابو پالیں گے۔

پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ اس وقت ملک میں جو مہنگائی عروج پر ہے وہ پی ٹی آئی کے چار سالہ دور حکومت کی وجہ سے ہے جس نے ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر مصنوعی طور پر رکھی اور درآمدات آخری سال تقریباً 80 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں اور اس وجہ سے پاکستانی روپے پر دباؤ رہا، موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ تعطل شدہ پروگرام کو دوبارہ شروع کیا اور دوست ممالک کے ساتھ بھی وہ تمام روابط بحال کئے جو گذشتہ حکومت نے خراب کئے تھے۔ وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ ملک کو گزشتہ 75 سالوں سے جن ناکامیوں کا سامنا ہے ان کی وجہ سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کا عدم تسلسل ہے، حکومت کی سرفہرست ترجیح نوجوانوں کو تربیت، تعلیم اور تجربات سمیت بہترین مواقع فراہم کرنا ہے جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔

سی پیک سے متعلق ایک سوال کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ سی پیک گیم چینجر منصوبہ ہے ، ہم نے اپنے گذشتہ دور حکومت میں قلیل عرصہ میں چین سے انرجی، انفراسٹرکچر، گوادر، تھر، ہائیڈل سمیت مختلف شعبوں میں تقریباً 29 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی تھی، یہ وہ دور تھا جب دنیا کا کوئی بھی سرمایہ کار پاکستان میں ایک روپیہ بھی لگانے کیلئے تیار نہیں تھا مگر دوست ملک نے سی پیک منصوبہ کے تحت پاکستان میں 29 ارب ڈالر کی سرمایہ سے آغاز کیا اور اس کے ساتھ ملک کے لاکھوں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کئے لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی سی پیک کو نشانہ بنایا منصوبہ کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا کیا گیا اور تمام منصوبوں کو عملا سرد خانے میں ڈال دیا ،گوادر جیسی بندرگاہ کو بھی نظر انداز کیا ۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے پاکستان کو جو نقصان پہنچایا سی پیک کی تباہی ان کا سب سے بڑا جرم ہے کیونکہ اگر یہ منصوبہ 2017 -2018 کی رفتار سے جاری رکھا جاتا تو اگلے 5 سے 7 برسوں میں پاکستان میں مختلف صنعتوں میں 30 سے 50 ارب ڈالر کی نجی سرمایہ کاری متوقع تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو اس نے سی پیک کو بحال کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ پاکستان کے وزیراعظم اور ایران کے صدر نے گذشتہ روز ایران کے بارڈر پر ایک مارکیٹ اور گوادر کیلئے 100 میگاواٹ ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح کیا، یہ منصوبہ 2018ء میں شروع ہوا تھا مگر گذشتہ نااہل حکومت نے اس کو بھی سبوتاژ کیا، وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے گوادر میں پانی و بجلی سمیت مختلف منصوبوں کو مکمل کیا گذشتہ حکومت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گوادر بندرگاہ کی سالانہ صفائی نہیں کرائی ۔ہم نے ساڑھے چار ارب روپے کا ڈریجنگ کنٹریکٹ دیا ہے تاکہ وہاں بڑے جہاز بھی آسکیں ۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے گوادر میں ماہی گیروں کیلئے 80 کروڑ روپے کی لاگت سے جدید کشتیوں کا پراجیکٹ شروع کیا۔ گوادر فری زون میں بھی چین سے تیزی سے سرمایہ کاری آرہی ہے ۔ گوادر میں 6 ماہ کی مدت میں نیا نمائشی مرکز مکمل ہوا ہے ۔قراقرم ہائی وے کے دوسرے مرحلے پر پیش رفت ہو رہی ہے۔ ایم ایل ون منصوبہ پر تعاون کو آگے بڑھایا جا رہا ہے امید ہے یہ جلد شروع ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت پسماندہ علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور ان علاقوں کی ترقی کے لئے خصوصی فنڈز مختص کئے جا رہے ہیں۔ ۔احسن اقبال نے صنعتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ ایک خوشحال معاشرے کی تشکیل کے لئے معیشت کو درست سمت پر گامزن کیا جا سکے۔

انہوں نےکہا کہ ہم بتدرریج پاکستان کی معیشت میں خود کفالت اور استحکام لانے کی راہ پر گامزن ہیں ۔مستقل بنیادوں پر معاشی استحکام کے لئے وزارت منصوبہ بندی و ترقی نے 5- ایز( Es) فریم ورک وضع کیا ہے جس کے تحت برآمدات کے فروغ، ای ( ڈیجیٹل) پاکستان کی ترقی، ماحولیات، توانائی اور مساویانہ پاکستان پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے لہذا اس فریم ورک کے تحت ایسا ایجنڈا مرتب کیا گیا ہے جو پاکستان کے لئے ناگزیر ہے انہوں نے کہا کہ جس ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے دنیا میں اسی کی عزت ہوتی ہے اور جو ملک دنیا میں کشکول لے کے پھرتا ہے اس کی کوئی عزت نہیں کرتا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نےکہا کہ موجودہ حکومت کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج پاکستان کی معاشی صورتحال میں ترقیاتی بجٹ کو پورا کرنا ہے، 2018ء میں ہمارا ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب روپے تھا اور رواں مالی سال میں 727 ارب روپے ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ اپنے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کرے تاکہ ملکی ترقی کا پہیہ چلتا رہے۔

چیدہ چیدہ ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ وسائل کی کمیابی کے باعث سب سے زیادہ ترجیح ان منصوبوں کو دی جارہی ہے جو مکمل ہونے والے ہیں یا پھر ہمارے 5 – ایز فریم ورک کے قریب تر ہیں۔انہوں نےکہا کہ ہم اعلی ترجیحی منصوبوں کو آگے لیکر چل رہے ہیں۔ ملک کی آبی گزرگاہوں کو مضبوط و محفوظ بنانے،مواصلاتی رابطوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ اعلی تعلیم کے فروغ، آئی ٹی شعبہ کی ترقی پر بھی توجہ مرکوز ہے۔ زرعی شعبے میں ملک کو سبز انقلاب-2 کی اشد ضرورت ہے جبکہ سی پیک منصوبوں پر تیزی سے پیش رفت ہمیشہ ہماری اولین ترجیح رہی ہے ۔

مزیدخبریں