شہباز شریف کے بارے میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ ’’کر گزرنے والا ہے‘‘ کارکردگی دکھانے، نتائج پیدا کرنے، نت نئے پراجیکٹس بارے غوروفکر کرنا اور پھر انہیں پروان چڑھانا شہباز شریف سے مختص رہا ہے۔ میاں سیف الرحمان ایک معتبر و سینئر جرنلسٹ ہیں نے بتایا کہ وہ کچھ عرصہ قبل ایک سرکاری وفد میں چین گئے تو انہوں نے وہاں سرکاری ہال میں نہ صرف شہباز شریف کی تصاویر آویزاں دیکھیں بلکہ چینی حکام کو ’’شہباز سپیڈ‘‘ کا معترف پایا۔ شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب صوبے میں تعمیروترقی کے بہت سے ریکارڈ قائم کئے۔ حکومتی رٹ قائم کر کے دکھائی۔ بیوروکریسی، جس کی ناکارکردگی اور نالائقی ضرب المثل بنی ہوئی تھی، کو ایک انتہائی فعال ادارے کی شکل دے کر معتبر بنایا۔ عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کو ایک نئی و جدید شکل دی پاکستان کی قسمت بدلنے والے پروگرام ’’چائنہ۔ پاکستان اکنامک کاریڈور‘‘ کے طے شدہ پروگرام کو رو بہ عمل لا کر جس انداز میں مکمل کیا وہ بھی ضرب المثل بن چکا ہے لیکن 12 اپریل 2022 کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد ان کی کارکردگی کہیں نظر نہیں آ رہی ٰتھی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا دوبھر کرنا شروع کر دیا تھا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ دوسری طرف ڈالر بے لگام ہو چکا ہے 200 کی نفسیاتی حد بھی کراس کر چکا ہے مہنگائی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ عوام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں متوقع ہولناک اضافے کے تصور سے خوفزدہ ہیں ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے شہباز شریف وزارت عظمیٰ کا حلف لینے کے بعد انجوائے کر رہے ہیں مزے لوٹ رہے ہیں پھر ایسی خبریں بھی آنے لگیں کہ عمران خان کے فوری انتخابات کے مطالبے کو دیکھتے ہوئے بجٹ کے اعلان کے ساتھ ہی فوری انتخابات کا ڈول ڈال دیا جائے اس لئے شہباز شریف کے پاس کچھ کرنے کی مہلت ہی نہیں ہے۔ شیخ رشید احمد جیسے بھونپو ٹائپ سیاستدانوں کے بیانات سے بھی ایسا ہی لگ رہا تھا کہ فوری الیکشن کا اعلان ہوا ہی چاہتا ہے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے ہمارے تمام مسائل کا حل فوری انتخابات کے اعلان میں پوشیدہ ہے اور تحریک انصاف جس طرح فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے اس سے ایسے لگتا ہے کہ قوم صرف انتخابات کا انتظار کر رہی ہے تاکہ عمران خان کو ایک بار پھر منتخب کر کے اقتدار میں لائے اور قومی معاملات درست ہو جائیں۔ جبکہ حالات اور واقعات ایسے نہیں ہیں۔
شہباز شریف نے غیرضروری اور لگژری اشیاء کی درآمد پر پابندی لگا کر ایک ایسے صائب فیصلے کا اعلان کیا ہے جس کے ہماری قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ڈالر کی دستیابی ہے۔ ہمارے درآمدی اخراجات 55/56 ارب ڈالر بنتے ہیں یعنی ہمیں اپنی درآمدات کہے لئے اتنے ارب ڈالر درکار ہوتے ہیں جبکہ ہماری ڈالروں میں آمدنی 25/26 ارب ڈالر ہوتی ہے گویا ہمارے اخراجات کے مقابلے میں
آمدنی کم ہے شہباز شریف نے ڈالر اخراجات کم کرنے کے لئے کچھ درآمدات پر پابندی لگا کر ’’کارکردگی کے میدان‘‘ میں پہلا قدم رکھ دیا ہے۔ 80سے زائد اشیاء تعیش کی درآمد ر پابندی کے باعث ماہانہ کم از کم 1000 ملین ڈالر کی بچت ہو گی۔ ایسی اشیاء کی لسٹ دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ کتے، بلیوں کی خوراک، پنیر، مکھن، جوسز، میک اپ کے لئے سرخی پوڈر و دیگر سامان، نقلی جیولری، اور اسی قسم کی اشیاء تعیش کی درآمد پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ 1000 سی سی سے اوپر طاقت کی گاڑیوں 100 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور 35 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔ اس سے حکومت کی ٹیکس آمدنی بھی بڑھے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس پالیسی کے اعلان کے ذریعے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ یعنی ،شہباز شریف قومی امنگوں کے مطابق معیشت کو آگے بڑھانے اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے یکسو ہیں۔ شہباز شریف کو سردست سخت مایوس کن معاشی و سیاسی حالات کا سامنا ہے۔ عمران خان جنہوں نے اپنے 44 ماہی دور حکمرانی میں قومی معیشت کے سارے کس بل نکال کر اسے اس جگہ تک پہنچا دیا ہے جہاں آگے صرف ڈیفالٹ ہی نظر آ رہا ہے عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ حکومت کے لئے آگے کھائی نہیں سمندر اور پیچھے میں کھڑا ہوں۔ کھائی یا سمندر والی بات صد فیصد درست ہے۔ کیونکہ اپنے پورے دور حکمرانی میں وہ نااہل اور ناکارکردگی کی کھائیاں کھودتے رہے جو بالآخر سمندر بن چکی ہیں۔ انہیں ایک عرصہ پہلے پتا چل چکا تھا کہ ’’فیصلہ ساز اداروں‘‘ نے انہیں رخت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جون 2021 اور اس کے قریب ان پر واضح ہو چکا تھا کہ ان کی رخصتی، نوشتہ دیوار بن چکی ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنی افتاد طبع کے عین مطابق آنے والی حکومت کے لئے گڑھے اور کھائیاں کھودنی شروع کر دیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو منجمد کرنے کا فیصلہ اور آئی ایم ایف کے ساتھ نامناسب شرائط پر معاہدہ کرنا ایسے معاملات ہیں جن کے منفی بلکہ شدید منفی اثرات سے شہباز شریف حکومت کو نمٹنا ہے۔ شہبازشریف کی حکومت ابھی ٹھیک طریقے سے کھڑی بھی نہیں ہو پائی کہ اس پر فیصلے کرنے کا دبائو بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ شہباز شریف پر کارکردگی دکھانے کا دبائو اس سے بھی شدید ہے کیونکہ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بہتری کریں گے۔ لیکن دوسری طرف عمران خان شکست کھانے کے بعد اور بھی خطرناک بن کر سامنے آ چکے ہیں وہ ہر ادارے اور ہر شخص کو للکار رہے ہیں جسے وہ ڈرانا دھمکانا چاہتے ہیں وہ بگٹٹ بھاگتے چلے جا رہے ہیں وہ ایک ایسے مطالبے کی منظوری چاہتے ہیں جس کے بارے میں انہیں معلوم ہے کہ منظور نہیں کیا جائے گا ان کا مقصد الیکشن کا فوری انقعاد نہیں ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ یہ انتخاب جیت نہیں سکیں گے ان کی کارکردگی قوم کے سامنے ہے۔ انہوں نے 22 سال تک قوم کو ڈلیور کرنے کے وعدے کر کے اپنے پیچھے لگایا تھا وہ تمام وعدے ان کے 4 سالہ دور حکمرانی میں زمین برد ہو چکے ہیں ان کی انتہائی پست کارکردگی اور سیاسی دشنام طرازی نے قوم کو بحیثیت مجموعی ان سے ناامید کر دیا ہے۔اب فوری یا دیر سے ہونے والے انتخابات میں ان کا دوبارہ اقتدار میں آنے کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے انہیں بھی نظر آ رہا ہے کہ وہ اب قوم کو اور زیادہ دھوکہ نہیں دے سکتے اس لئے کبھی امریکی سازش اور کبھی اپنے قتل کی سازش کا اعلان کر کے ووٹرز کے جذبات اپنے لئے ابھارنے کی ناکام کاوشیں کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کے جلسوں میں عوامی شمولیت کا گراف دیکھ کر ہماری تحریر کی سچائی کو جانچااور پرکھا جا سکتا ہے۔ عمران خان کے جلسے سورج کی روشنی کی بجائے رات کی تاریکیوں میں منعقد ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سچ کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اب کارکردگی دکھانے کا سارا بوجھ مع عمران خان کے دور حکمرانی کا گند سمیٹنے کی ذمہ داری شہباز شریف کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ یہ شہباز شریف کی قائدانہ صلاحیتوں کا کڑا امتحان ہے قوم انہیں اس امتحان میں کامیاب دیکھنا چاہتی ہے کیونکہ ہمارے پاس شہباز شریف کی کامیابی کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ہے۔
آئیں دعا کریں کہ اللہ ہمیں اس مشکل دور سے نجات دے۔ آمین۔