عدمِ اعتماد کی کامیابی اور نئی اتحادی حکومت بننے کے باوجود شہرِ اقتداراسلام آباد سے بے یقینی کا خاتمہ نہیں ہو سکا بلکہ وثوق سے اتنی آنے کی باتیں نہیں ہوئیں جتنی جلدی جانے کے دعوے ہونے لگے ہیں اِس بے یقینی سے کام عملاََ ٹھپ ہیںاور بیوروکریٹ فیصلے کرنے کی بجائے دیکھو اورانتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں یہ بالکل عمران خان کے خلاف پیش ہونے والی عدمِ اعتماد کے آخری دنوں والی ویسی ہی صورتحال ہے جب وزیرِ اعظم کے احکامات پر عمل کرنے کی بجائے التوا میں رکھاجانے لگا تھا اگر وزراکام کے متعلق دریافت کرتے تو صاف انکار کی بجائے شستہ لہجے میں جلد ہی کام ہوجانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے باتوں سے مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی البتہ کوئی سخت لہجہ اختیار کرتا توجواب میں واضح انکار کر دیا جاتا اب بھی نہ صرف ویسی ہی صورتحال دوبارہ ہے بلکہ شہبازشریف خود بھی فیصلے کی بجائے حالات کے دھارے کے مطابق چل رہے ہیں جس سے ضروری فیصلوں میں بھی تاخیر ہورہی ہے دراصل وہ کسی فیصلے کی اکیلے ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیںبلکہ سب کو اعتماد میں لیکر اور پھر ذمہ داری قبول کرنے کی یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد ہی چلنا چاہتے ہیں لیکن کوئی بھی وزیرِ اعظم کو کندھا پیش کرنے کو تیار نہیں اتحادیوں کی طرف سے یہ تو کہا جاتا ہے کہ ہم وزیرِ اعظم کے ساتھ ہیں مگر سبسڈی کے خاتمے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں درجن کے لگ بھگ جماعتوں کی تائید سے منصب حاصل کرنے جیسامشکل ٹاسک تو حاصل کر چکے مگر یہ ٹاسک برقرار کیسے رکھنا ہے یہ اُنھیں سمجھ نہیں آرہی کیونکہ کچھ اتحادی فاصلہ رکھنے لگے ہیں سپریم کورٹ سے 63 اے کی تشریح اور منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کی رولنگ سے سیاسی ماحول ہی بدل گیاہے اسی بناپر شہرِ اقتدار کے باخبر حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کمپنی چلتی نظر نہیں آتی بلکہ کسی وقت بھی اسمبلی توڑنے کی صدر کوسفارش بھیجی جا سکتی ہے اوراسی نتظار میں بیٹھے صدر عملدرآمد میں ایک پل کی بھی تاخیر نہیں کریں گے علاوہ ازیں بدلے سیاسی ماحول کی وجہ سے حفیظ شیخ کا بطور نگران وزیرِ اعظم نام بھی لیا جانے لگا ہے تاکہ آئی ایم ایف سے معطل پروگرام بحال ہو سکے کمپنی نہ چلنے کی دیگربھی کئی ایک وجوہات ہیں۔
پیٹرول مصنوعات پر عمران خان کی دی گئی سبسڈی سے معیشت سخت دبائو میں ہے لیکن حکومت سبسڈی ختم کرنے سے خوفزدہ ہے کیونکہ پیٹرول قیمتیں بڑھنے سے عوام کی طرف سے شدید ردِ عمل متوقع ہے اور اگر موجودہ اسمبلی مدت پوری نہیں کرتی اور قبل ازوقت عام انتخابات ہوتے ہیں تو عوام کے شدید ردِ عمل سے اتحادی حکومت میں شامل سب سے بڑی جماعت کا ووٹ بینک متاثر ہو گا اسی لیے غیر مقبول فیصلوں کاچیف ایگزیکٹو اکیلے وزن اُٹھانے اور سیاسی قیمت چکانا نہیں چاہتے تیزی سے ختم ہوتے زرِ مبادلہ کے ذخائر کے باوجود اسی لیے کوئی بھی غیر مقبول فیصلہ کرنے سے گریز کیاجارہا ہے شہباز شریف کو ایک یہ بھی خوف ہے کہ شاید تمام اسٹیک ہولڈرکی اُنھیں مکمل حمایت حاصل نہیں بلکہ اب بھی کہیں نہ کہیں عمران خان کے لیے نرم گوشہ موجود ہے تبھی عوام رابطہ مُہم میں اُن کا لب و لہجہ پُراعتماد اور کاٹ دار ہے صدارتی ریفرنس پرسپریم کورٹ کا دو کے اختلافی نوٹ کے باوجود تین کی اکثریت سے سنایا جانے والا جواب بھی اسی تناظرمیں دیکھا جارہا ہے شہبازشریف کی خواہش ہے کہ اتحادیوں کے علاوہ تمام اسٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لے کر فیصلے کریں اورپھر یہ اسٹیک ہولڈر نتائج بھگتنے میں اکیلا نہ چھوڑیں بلکہ اکٹھے نتائج بھگتنے کی بھی یقین دہانی کرائیں لیکن ابھی تک خواہش کے جواب میں خاموشی ہے اِس خاموشی سے متوحش کمپنی اب اقتدار میں مزید رہنا نقصان دہ تصور کرتی ہے لیکن بڑی محنت ،کوشش اور تگ ودو سے ملنے والے اقتدارکوچھوڑنے کا احسان کسی کے سر منڈھنا چاہتے ہیں لیکن یہاں بھی حیران کن لاتعلقی ہے یہ لاتعلقی بھی کمپنی کی پریشانی بڑھانے کی موجب ہے۔
معیشت درست کرنے کا مشکل کام کرنے سے قبل مقتدرہ سے فرمائش کی گئی ہے کہ 2023 اگست تک اقتدار میں رہنے کی یقین دہانی کرائیں تو ہی ملک کو درپیش معاشی مسائل کے حل کا کام شروع کریں گے اگر مقتدرہ کی طرف سے یقین دہانی نہیں کرائی جاتی تو وزیرِ اعظم مسلسل دبائو میں رہ کر کام کرنے اور پھر انتخابات میں نقصان اُٹھانے کی بجائے اسمبلی تحلیل کرنے کی طرف جا سکتے ہیں عمران خان مسلسل عوام رابطہ مُہم کے ذریعے اپنی مقبولیت بہتر بنانے میں مصروف ہیں جبکہ حکومت میں ہونے کی وجہ سے شہباز شریف کی توجہ دیگر منصبی فرائض پربھی ہے مریم نواز اور حمزہ شہباز نے ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے جلسے شروع کیے ہیں تاکہ قبل ازوقت انتخابات کی فضا بنے تو اُن کی جماعت بھی مناسب مقام پر ہو لیکن نواز شریف یا شہبازشریف کی طرح وہ عوامی توجہ حاصل نہیں کر سکے عام انتخابات کا فیصلہ کرنے سے قبل نگران سیٹ اَپ کے لیے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت ضروری ہے راجہ ریاض کو اپوزیشن لیڈر بنا کرحکومت مرضی کانگران سیٹ اَپ بنانا چاہتی ہے پی ٹی آئی کے منحرف اراکینِ قومی اسمبلی کی طرف سے اپوزیشن لیڈر بنانے کی اسپیکر کو درخواست اسی سلسلے کی کڑی ہے حالانکہ ایسے ملی بھگت سے ہونے والے فیصلے اصل اپوزیشن قبول کرنے کی بجائے رَد کر دے گی اور ضد کی صورت میں سیاسی بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے ق لیگ اور جی ڈی اے کی اسمبلی میں موجودگی کے باوجود پی ٹی آئی کے منحرف اراکین میںسے اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی اسپیکر کی کھلی جانبداری ہو گی جب ق لیگ کی طرف سے اِس کے لیے سب سے پہلے درخواست جمع کرائی جا چکی ویسے بھی سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلوں کے تناظر میں ایسی نظیر قائم کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں ایسے فیصلوں سے عوامی حلقوں کی طرف سے انتخاب کے مطالبے میںسختی آئے گی مذکورہ بالا وجوہات سے ہی واقفانِ راز کے رواں برس انتخابی عمل شروع ہونے کے دعوے کو تقویت ملتی ہے ظاہر ہے انتخابات اسی صورت میں وقت سے پہلے کرائے جا سکتے ہیں اگر کمپنی کام کرنے میں ناکامی سے دوچار ہوجائے۔
سپریم کورٹ کے بعد الیکشن کمیشن نے اتفاقِ رائے سے پنجاب میں پی ٹی آئی کے 25منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس منظور کرتے ہوئے نہ صرف اُنھیں نااہل قرار دے دیا ہے بلکہ ساتھ ہی ڈی سیٹ بھی کر دیا ہے اِس فیصلے میں سپریم کورٹ کی رولنگ کا بڑاعمل دخل ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے فیصلے کی کاپی ملنے تک فیصلہ ملتوی رکھا الیکشن کمیشن کے ٖفیصلے کی روسے آل شریف کے اہم قلعے پنجاب میں حمزہ شہباز بطور وزیرِ اعلٰی اپنی اکثریت کھو چکے ہیں اگر پنجاب میں حامی حکومت نہ ہو تو آل شریف کو مرکزی حکومت میں بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں رہے گی اسی لیے مزید عرصہ حکومت میں رہ کر پیٹرول مصنوعات کی قیمت بڑھانے اور ملک میں کئی کئی گھنٹوں تک توانائی بحران سے عوامی نفرت سمیٹنے کی بجائے اقتدار سے الگ ہونے میں ہی عافیت تصور کریں گے لندن میٹنگ میں نواز شریف نے واضح کر دیا کہ اگر فیصلوں کی ذمہ داری سے پی پی اور دیگر اتحادی جماعتیں راہ فرار اختیار کرتی ہیں تو اسمبلی توڑ کر فوری عام انتخابات کا آپشن اپنایا جائے پنجاب کے موجودہ حالات میں اگر چوہدری پرویز الٰہی جیسا متحرک اور جہاندید ہ شخص چاہے چند ماہ کے لیے ہی وزیراعلیٰ بن گیا تونہ صرف ن لیگ کو سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑ ے گا بلکہ عین ممکن ہے چند بڑے نام ٹوٹ کر کسی اور جماعت کا ٹکٹ حاصل کرلیں پنجاب میں ایسا ہونا کوئی نئی بات نہیں اسی لیے آدھے ادھورے اقتدار کو برقرار رکھنے پر محنت کرنے کی بجائے عوام سے فوری رجوع کرنا ہی برسرِ اقتدار کمپنی کے لیے سود مند ہو گا۔