الطاف حسن قریشی پاکستان کی صحافت کا نہایت معروف اور معتبر نام ہیں۔ کم و بیش سات دہائیوں سے وہ افق صحافت پر جگمگا رہے ہیں۔ وہ ایک قومی سطح کے دانشور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ اب تک سینکڑوں مضامین، اداریے، اور تحقیقی رپورٹیں تحریر کر چکے ہیں۔آپ نے بیسیوں معروف اور اہم شخصیات کے انٹرویوز کئے ہیں۔وہ ہر زمانے میں دبنگ انداز میں لکھتے رہے۔ اپنی حق گوئی کی وجہ سے انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ الطاف قریشی صاحب نے اپنے بڑے بھائی مرحوم اعجاز حسن قریشی کے ساتھ مل کر ریڈرز ڈائجسٹ کی طرز پر اردو ڈائجسٹ کی بنیاد ڈالی تھی۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے اردو ڈائجسٹ ایک مقبول ماہنامہ کے طور پر شائع ہو رہا ہے۔ الطاف قریشی صاحب آج بھی اردو ڈائجسٹ کے سرپرست اور مدیر اعلیٰ کے طور پر متحرک ہیں۔بیسیوں سینئر اور نامور صحافی الطاف قریشی صاحب کو استاد کا درجہ دیتے ہیں۔ ان صحافیوں نے اردو ڈائجسٹ میں کام کر کے قریشی صاحب سے صحافت کے اسرار و رموز سیکھے۔ الطاف قریشی صاحب کی عمر عزیز نوے برس سے زائد ہے۔ تاہم آج بھی وہ لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ روزنامہ جنگ میں ان کے فکر انگیز کالم ہمیں پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ ملک کے سیاسی منظر نامے پر ان کے کاٹ دار تجزئیے قارئین میں بہت مقبول ہیں۔
الطاف قریشی صاحب کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ان کی ایک کتاب "جنگ ستمبر کی یادیں " منظر عام پر آئی تھی۔ آج کل ان کی کتاب" مشرقی پاکستان، ٹوٹا ہوا تارا" کے چرچے ہیں۔محترم الطاف حسن قریشی صاحب کی بزرگانہ شفقت ہے کہ وہ اپنی کتابیں مجھے تحفتا عنایت فرماتے ہیں۔ ہفتہ دس دن قبل حسب معمول ان کی ٹیلی فون کال اور کتاب موصول ہوئی۔یہ کوئی عام کتاب نہیں ہے۔ یہ 1400 سے زائد صفحات پر مشتمل اچھی خاصی ضحیم کتاب ہے۔ اس کتاب کا موضوع اور مواد بھی نہایت بھاری بھرکم ہے، جس کا وزن اٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جیسا کہ اس کتاب کے ٹائٹل سے عیاں ہے، یہ کتاب سقوط ڈھاکہ کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ پچاس برس سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود سانحہ مشرقی پاکستان پر کھل کر بات کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ آج بھی اس سانحے کے ذمہ داروں کی طرف اشارہ کرتے اور تلخ حقائق کا تذکرہ کرتے بہت سوں کی زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔ تاہم الطاف قریشی صاحب نے نہایت کھلے اور نڈر انداز میں سانحہ مشرقی پاکستان سے وابستہ حقائق بیان کئے ہیں۔
یہ کتاب دراصل الطاف قریشی صاحب کی گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش پر لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے۔ سقوط ڈھاکہ ایک قومی سانحہ ہے۔ اس حادثے کے نتیجے میں قائد اعظم کا پاکستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ ایک حصہ بنگلہ دیش بن گیا۔ اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ تحقیقی رپورٹیں اور مضامین بھی شائع ہو چکے ہیں۔ الطاف قریشی صاحب کی کتاب اس لئے مختلف ہے کہ انہوں نے نہایت تفصیل سے اس حادثے کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کی تحریروں کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، جو بذات خود مشاہدہ کیا، جو سنا اور محسو س کیا، وہ بیا ن من وعن بیان کر دیا۔اس زمانے میں الطاف قریشی صاحب کو کئی مرتبہ مشرقی پاکستان جانے کا موقع ملا۔ انہوں نے وہاں بہت سی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے انٹرویو کئے۔ قریشی صاحب نے نوجوانوں اور خاص طور پر طالب علموں کے ساتھ بھی مکالمہ کیا۔ تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ بنگالی نوجوان سیاسی صورتحال کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ جس وقت بنگلہ دیش تحریک اپنے عروج پر تھی تب بھی قریشی صاحب نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حقائق کی تلاش میں مشرقی پاکستان کے کئی دورے کئے۔
جب بھی مشرقی پاکستان کا ذکر ہوتا ہے ہمیں یہ بات یاد آتی ہے کہ اتنا بڑا قومی سانحہ ہو گیا۔ لیکن کسی نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ کسی ایک مجرم کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بچے کھچے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی۔ ایک قومی کمیشن قائم کیا۔ چیف جسٹس حمود الرحمان اس کمیشن کے سربراہ تھے۔ حمود الرحمن کمیشن نے کئی کرداروں سے پوچھ گچھ کی۔ مرتب کردہ رپورٹ میں اس حادثے کے ذمہ داروں کا تعین کیا۔ انہیں سزا دینے کی سفارش کی۔ لیکن اس رپورٹ پر عمل درآمد نہیں کی گیا۔اس واقعے سے کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اب تو یہ زمانہ آ گیا ہے کہ کچھ برسوں سے سقوط ڈھاکہ کی یاد منانا بھی نہایت محدود ہو گیا ہے۔ الطاف قریشی صاحب نے یہ کتاب لکھ کر سانحہ سقوط ڈھاکہ کی یاد پھر سے تازہ کر دی ہے۔یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح ہماری سیاسی، انتظامی اور فوجی قیادت کی غلطیوں اور حماقتوں کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا۔ کتاب میں سقوط ڈھاکہ کے ضمن میں تعلیمی، مذہبی، معاشی اور صحافتی عوامل کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ کس طرح زبان کے فرق نے پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصوں کے مابین دوریاں بڑھانے میں کردار ادا کیا۔الطاف قریشی صاحب یہ تلخ حقیقت بھی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں اور افسروں کے اہانت آمیز رویے کی وجہ سے بنگالیوں کی عزت نفس مسلسل مجروح ہوتی رہی۔ اس کتاب میں ان بیرونی سازشوں اور اندرونی غلطیوں کا تفصیلی تذکرہ ملتا ہے جو آخر کار سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوا۔
ہم میں سے جو بھی سقوط ڈھاکہ کے اسباب و محرکات کے سب کو اس کتاب کو پڑھنا چاہیے۔ خاص طور پر نوجوان نسل کو آج کی نوجوان نسل کتاب سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ چودہ سو صفحات پر مشتمل کتاب کو پڑھنا آسان کام نہیں ہے۔ اگر کسی کے لئے تمام کتاب پڑھنا ممکن نہ ہو تو کتاب کا دیباچہ تو ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ محشر خیال کے نام سے لکھا دیباچہ لکھا ہے وہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ صحافت اور سیاست کے طالب علموں کو اس کتاب کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ یہ کتاب جامعات اور کالجوں کی لائیبریریوں میں رکھنے کے لائق ہے۔
اس کتاب کو معروف اشاعتی ادارے قلم فاونڈیشن نے شائع کیا ہے۔ برادرم علامہ عبد الستار عاصم اس اشاعتی ادارے کے روح رواں ہیں۔قلم فاونڈیشن تسلسل کے ساتھ بہت اچھی کتابوں کی اشاعت میں مصروف ہے۔ اس عمدہ کتاب کی اشاعت پر قلم فاونڈیشن اور علامہ عبدالستار عاصم صاحب خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں۔