چیئرمین سینیٹ، عزت مآب محمد صادق سنجرانی، مرنجاں مرنج بلکہ باغ وبہار شخصیت کے مالک ہیں۔ دوست بنانا، دوستیاں پالنا اور دوستانہ رشتہ وتعلق کی نزاکتیں نباہنا کوئی اُن سے سیکھے۔ اُن کا حلقہئِ رفاقت شمال وجنوب کے قبائل سے لے کر راولپنڈی کی عالی مرتبت بارگاہوں، اسلام آباد کے مقتدر ایوانوں اور ریڈزون میں سفارتی منطقے کے قلعہ بند گھروں تک ہی نہیں، شرقِ اوسط کے شاہی خاندانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ کسی کو پسند نہ بھی کرتے ہوں تو ایسی گرم جوشی اور کشادہ قلبی سے ملتے ہیں کہ وہ چند لمحوں میں دِل دے بیٹھتا ہے۔ بڑے بڑے جغادری سیاستدان بھی ہمارے ہاں کے بے اعتبار اور متلوَّن مزاج موسموں کی پہچان پَرکھ میں ٹھوکر کھاجاتے اور پھر عمر بھر اپنے شکستہ وجود کی کرچیاں سمیٹتے رہتے ہیں لیکن صادق سنجرانی اس فن پر بے مثل دسترس رکھتے ہیں۔ زلزلہ ابھی کوہِ ہندوکُش کی سب سے گہری کھوہ میں کروٹ بدلنے کی سوچ ہی رہا ہوتا ہے کہ سنجرانی صاحب اِس کا ارتعاش محسوس کرتے ہوئے ضروری حفاظتی تدابیر کرلیتے یا کم ازکم کلمہئِ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے کھلے سبزہ زاروں میں آجاتے ہیں۔ موجودہ منصبِ بلند پر کمند ڈالنا، تندوتیز آندھیوں کے باوجود مضبوطی سے قدم جمائے رکھنا، عدمِ اعتماد کی تحریکیں ناک پر بیٹھی مکھی کی طرح اڑا دینا اور ایوان میں عددی اکثریت کے خرخشوں سے بے نیاز ہوکر ہر معرکے میں سُرخرو ٹھہرنا اُن کے اِسی دستِ ہُنرمند کا اعجاز ہے۔ شگفتہ مزاجی کے باوجود کبھی ترنگ میں آجائیں تو پُرجلال لہجے میں کہتے ہیں _ ”میں نے بھی اونٹنی کا دودھ پیا ہے۔“ گزشتہ برس، اِنہی دنوں، اسلام آباد کی سیاست میں بھونچال آیا تو بھی سنجرانی صاحب نے توازن قائم رکھا۔ بطور چیئرمین اُن کے انتخاب میں عمران خان کا کلیدی کردار تھا۔ اگرچہ اِس کلیدی کردار کی ”کلید“ کسی اور کی جیب میں تھی لیکن مشکل کی گھڑی میں سنجرانی صاحب کھرے اور وفاشعار بلوچ کی طرح خان صاحب کے ساتھ کھڑے رہے۔ مجھے اُن کی یہ ادا بہت اچھی لگی تھی۔ کایا کلپ ہوجانے اور خان صاحب کے مخالفین کی حکومت قائم ہوجانے کے بعد بھی انہوں نے کمال مہارت کے ساتھ اپنا توازن برقرار رکھا۔ ایوان میں دائیں بیٹھے ارکان بائیں ہاتھ جابیٹھے۔ اپوزپشن حکومتی بینچوں پہ آگئی۔ میں نے سوچا کہ اب سنجرانی صاحب کو بڑی مشکل پیش آئے گی۔ لیکن انہوں نے یہ بھاری پتھّر بھی دُھنکی ہوئی روئی کی گٹھڑی کی طرح اٹھالیا۔
سینیٹ کی پچاسویں سالگرہ شایانِ شان طریقے سے منانے کا خیال بھی اُن کے ذہنِ رسا کی شاخ پر پھوٹا۔ مالی مشکلات اور بچت کی
قدغنیں نہ لگتیں تو سنجرانی صاحب کے تشکیل کردہ وسیع وعریض پروگرام برسوں یاد رہتے تاہم سینیٹ کے ایوان میں گولڈن جوبلی کی سہ روزہ تقریبات بھی گہرا تاثر چھوڑ گئیں۔ سنجرانی صاحب کی ذاتی نگرانی اور عمدہ صلاحیتوں کے حامل سیکریٹری سینیٹ محمد قاسم صمد خان کی انتظام کاری نے خوب رنگ جمایا۔ سابق سینیٹرز، موجودہ گورنرز، وزرائے اعلیٰ، دنیا بھر کے سفیروں اور معاشرے کے مختلف طبقات کی نمائندہ شخصیات کی شرکت نے اِس جشن کو یادگار بنادیا۔
شرکاء، بالخصوص سینیٹرز کی بھاری اکثریت نے آئین کی بالادستی کو جمہوریت کے استحکام اور پاکستان کی مضبوطی کی شرطِ اوّل قرار دیا۔ انہوں نے آئین سے کھیلنے والے آمروں اور اُن کی آئین شکنی کو سندِ جواز دینے والے ججوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ”ہال آف فیم“ کے علاوہ ”ہال آف شیم“بھی ہونا چاہیے۔ ایک البم آئین بنانے اور اس کے لئے قربانیاں دینے والوں کی ہو تو ایک آئین روندنے والے جرنیلوں اور ججوں کی سیاہ کاریوں کی۔ تین دِنوں پر محیط مباحثے میں یہ سوچ غالب رہی۔ میں نے اپنی مختصر تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو کا ذکر کیا۔ بھٹو صاحب نے 14 اگست 1974 کو پارلیمنٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ بارہ برس بعد مئی 1986 میں وزیراعظم محمد خان جونیجو نے نوتعمیر پارلیمان کا افتتاح کیا۔ میں نے کہاکہ ہر روز میں اِن دونوں کتبوں کو دیکھتا اور سوچتا ہوں کہ اِن دونوں پہ کیا گذری؟ بس یہی ہماری پچاس سالہ تاریخ کا خلاصہ ہے۔
سہ روزہ تقریبات کے آخری دِن سے قبل ہمیں گھروں میں اگلے روز کے ایجنڈے کی تفصیلات ملیں۔ اُن میں ایک قرارداد کا مسودہ بھی تھا جسے اختتامی اجلاس میں منظور ہونا تھا۔ تعجب ہوا کہ اس میں ایوان کے اجتماعی جذبہ واحساس کا اشارا تک نہ تھا۔ اگلے دن صبح ہی صبح میں نے تحریری طور پر قرارداد میں ایک ترمیم تجویز کی جس میں کہاگیا کہ ”یہ معزز ایوان ان تمام فوجی آمروں کی مذمّت کرتا ہے جنہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین توڑا، غارت کیا یا اُسے معطّل رکھا، اور اِس طرح پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق پہ ڈاکہ ڈالا۔ ایوان اُن تمام نام نہاد ججوں کی بھی مذمّت کرتا ہے جنہوں نے اپنے حلف سے انحراف کرتے ہوئے نہ صرف آمروں کے غیرآئینی اقدامات کی توثیق کی بلکہ انہیں اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے آئین سے کھیلنے کی اجازت بھی دی۔“ میری ترمیم سیکریٹری اور چیئرمین صاحب تک پہنچی۔ وزیرمملکت برائے قانون وانصاف شہادت اعوان میرے پاس آئے اور کہاکہ فی الحال زور نہ ڈالیں۔ میں نے دوبار اپنی نشست پر کھڑے ہوکر کچھ کہنا چاہا۔ بولا کہ مجھے اپنی ترمیم ایوان کے سامنے پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ مجھے کامل یقین تھا کہ ایوان میں بیٹھا کوئی ایک سینیٹر بھی اِس کی مخالفت نہیں کرے گا تاہم چیئرمین صاحب نے کہاکہ ”اسے بعد میں دیکھ لیں گے۔“ سو آئین شکنوں کی مذمّت کے بغیر ہی ایک سادہ ومعصوم سی قرارداد منظور ہوگئی۔ یہ قرارداد ایک معتبر کمیٹی نے تیار کی تھی اور میں جانتا ہوں کہ چیئرمین سنجرانی کا اِس میں زیادہ عمل دخل نہ تھا۔ البتہ مجھے ترمیم پیش کرنے کی اجازت نہ دینا، خالصتاً ان کی صوابدید تھی۔
راہداری میں بچھے ُسرخ قالین پر ہولے ہولے قدم اٹھاتا میں پارلیمنٹ کے صدر دروازے کی طرف بڑھا۔ شکست خوردہ ترمیم کا مسودہ میرے ہاتھ میں تھا۔ محمد خان جونیجو اور ذوالفقار علی بھٹو کے کتبوں پر شرمگیں سی نگاہ ڈالتے ہوئے میں باہر نکل آیا۔ ابھی تک ایک سوال میرے ذہن سے چپکا ہوا ہے۔ کیا ہم اتنے ہی ناتواں ہیں کہ ایوانِ بالا کی پچاسویں سالگرہ مناتے ہوئے اُن سیاہ کاروں پر دو حرف بھی نہیں بھیج سکتے جو اِس کی چادرعِفت نوچتے اور آئین کا گریباں تار تار کرتے رہے؟ کیا خوف گُودا بن کر ہماری ہڈیوں کا حصہ بن چکا ہے؟