آرٹیکل 63 A۔قانون پر روح کے مطابق عمل ضروری

10:10 AM, 21 Mar, 2022

نیوویب ڈیسک

 پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو تحریک عدم اعتماد اور سیاسی عمل میں کوئی دلچسپی نہیں تاہم آئین اور قانون کی عملداری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ یہ ریمارکس تحریک عدم اعتماد کے دوران تصادم کے ممکنہ خطرے سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوی ایشن کے صدر احسن بھون کی درخواست کی سماعت کے دوران دیئے۔ جبکہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آرٹیکل 63-A کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس فائل کیا جائیگا،  اورسپریم کورٹ سے رائے مانگی جائیگی کہ جب ایک پارٹی کے ممبران واضح طور پر ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہوں اور پیسوں کے بدلے وفاداریاں تبدیل کریں تو ان کے ووٹ کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ مزید حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے سندھ ہاؤس میں مقیم اپنے 14 منحرف ارکان کو شوکازنوٹسز آئین کی شق 63 اے کے تحت جاری کیے ہیں۔اعلیٰ حکومتی عہدیداران کی طرف سے الیکشن کمیشن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اوراس سے متعلقہ اراکین پارلیمنٹ کی مبینہ فلور کراسنگ کے سلسلہ میں الیکشن کمیشن کوئی اقدام نہیں اٹھا رہا۔
آئین کے آرٹیکل63 اے میں اراکین پارلیمنٹ کے انحراف کی وجہ سے نااہلی کا طریق کاردیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63-A کا مقصد پارٹی قیادت کے نام پر ووٹ لینے والے کو فلور پار کرنے کی اجازت نہ دینا ہے، جسکے تحت حکومتی پارٹی کے رکن جب عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیں گے تو اس پر پارٹی کی طرف سے ایسے ممبر کو آرٹیکل 63A کے تحت شوکاز نوٹس جاری کیا جائے گااور بعدازاں یہ ریفرنس بذریعہ سپیکر چیف الیکشن کمشنر کو ارسال کیا جائے گا، الیکشن کمیشن اس پر فیصلہ دے گا اور وہ سیٹ خالی تصور ہوگی۔ الیکشن کمیشن کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 218 ون اور 219 کے تحت مجلس شوریٰ ، صوبائی اسمبلیوں، بلدیاتی اداروں اور دیگر انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اسکے علاوہ الیکشن کمیشن کو صدر پاکستان کے انتخاب کا انعقاد آئین کے آرٹیکل 41 (3) اور سیکنڈ شیڈول کے تحت حاصل ہے۔ آئین کے آرٹیکل 91 (4) میں وزیراعظم کے انتخاب کا طریق کار دیا گیا ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت عدم اعتماد کی تحریک کی کارروائی ہوتی ہے جس کاطریق کار قومی اسمبلی کے وضع کردہ قواعد و ضوابط مجریہ 2007 کے رول 37 اورسیکنڈ شیڈول کے مطابق ہے۔مذکورہ آئین و قوانین کی شقوں اور رولز آف بزنس کے تحت یہ واضح کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم کے انتخاب اور عدم اعتماد سے متعلق الیکشن کمیشن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس انتخاب اور عدم اعتماد کی تمام کارروائی سپیکر قومی اسمبلی بطور پریذائیڈنگ آفیسر انجام دیتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے میں اراکین کے انحراف پر ان کی نااہلی کا طریق کار دیا گیا ہے۔ 
دودہائی قبل تک پارلیمنٹ میں ہارس ٹریڈنگ کے نام سے ارکان کی خرید و فروخت بلا کسی خوف و خطر و شرمندگی کے جاری تھی، اور پیسوں یا مراعات کی خاطر پارٹیاں بدلنے کے لیئے  فلور کراسنگ کی اجازت تھی۔ پھر آئین و قانون میں اس خرید وفروخت کو روکنے کیلیے anti defection law بنایا جس کا اولین مقصد ووٹوں کی خریدو فروخت کو روکنااور وزیر اعظم اور اس کی حکومت کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ آئین میں آرٹیکل 63A کے تحت پانچ مواقع،  وزیر اعظم کے انتخاب، تحریک اعتماد، تحریک عدم اعتماد، حکومت کا منی بل بجٹ پر ووٹنگ اور کسی آئینی ترمیم پر ووٹنگ پر مشتمل ہیں۔اس دوران اگر کوئی رکن ان میں سے کسی ایک موقع پر بھی پارٹی سربراہ کے ہدایت کے خلاف ووٹ دے گا تو وہ اسمبلی کی ممبر شپ سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ جبکہ آرٹیکل 63A کی کلاز 5 کے مطابق کسی ایک موقع پر بھی پارٹی سربراہ کے ہدایت کے خلاف واضح عمل کرنے پر بھی وہ ممبر اسمبلی کی ممبر شپ سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ 
آئین میں آرٹیکل 63A کا ایک ہی مقصد،منتخب وزیر اعظم اوراس کی جمہوری حکومت کو ووٹوں کی خرید وفروخت جیسے عوامل سے تحفظ دینا ہے۔ تمام انتخابات کیلئے ووٹنگ خفیہ ہے لیکن صرف وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے ووٹنگ اوپن رکھی گئی تاکہ ہارس ٹریڈنگ یا فلور کراسنگ کا ممکنہ نقصان وزیر اعظم کو نہ پہنچے۔ آئین کے تحت سپیکر یا ڈپٹی سپیکر اورچیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئر مین سینیٹ کا انتخاب یا عدم اعتماد خفیہ رائے شماری سے ہوتا ہے، ماضی قریب میںچیئرمین سینیٹ کے خلاف ہونے والی تحریک عدم اعتماد پر جس انداز میں اراکین نے اپنے ووٹ ادھر ادھر کیے ،یہ سب پیسے اور مراعات کے باعث ممکن ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان نے سینیٹ کے الیکشن کو اوپن ووٹنگ سے کرنے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیاتھا تاکہ سینیٹ الیکشن میں اراکین اسمبلی کو خریدنے کا سلسلہ رک سکے۔ آرٹیکل 63A کا اضافہ اس کی اصل اساس کے مطابق وزیر اعظم کیلئے بالخصوص اوپن ووٹنگ کا طریقہ متعارف کرایا اور پارٹی سے انحراف پر پابندی لگائی تاکہ وزیر اعظم اور اس کی حکومت کو پیسے کے زور پر ہونے والی خریدو فروخت سے محفوظ رکھا جاسکے۔اب جبکہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جا چکی ہے اورسندھ ہاؤس ان گھوڑوں کااصطبل بن چکا ہے۔اس موقع پرحکومت نے آرٹیکل 63A کو اس کی روح  کے مطابق نافذ کرانے کا فیصلہ کیا ہے،اس مقصد کیلئے وزیر اعظم بطور پارٹی سربراہ سپیکر قومی اسمبلی کو ایک خط لکھیں گے اوران سے آرٹیکل63A کے مطابق درخواست کرینگے، کہ وہ حکومتی اراکین کی جانب سے ممکنہ آئینی خلاف ورزی کو روکیں، اس خط کے پیش نظر سپیکراپنااختیاراستعمال کرتے ہوئے ایسے کسی بھی منحرف رکن کو پارٹی ہدایات کے خلاف جانے سے روکیں گے اورایسے کسی بھی منحرف رکن کے ووٹ کو غیر آئینی قرار دیں گے۔جبکہ سپیکر کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ کسی ووٹ کو مسترد کریں اور آرٹیکل 63A میں ایسا کہیں درج نہیں کہ پہلے سے ہی کسی منحرف رکن کو ووٹ دینے سے روکا جائے۔البتہ کسی بھی قانون کا اس کی اصل اساس کے مطابق اطلاق کیا جاتا ہے، قانون کی روح کے مطابق اگر کسی بھی منحرف رکن کو آرٹیکل 63A  کی خلاف ورزی کرنے دی جائے،تواس کا نقصان وزیراعظم اورحکومت کوہوگا۔حقیقت ہے کہ آرٹیکل 63A ایک Preventive law ہے، جس کا مقصد جرم کے ارتکاب کو روکنا ہے تاکہ ممکنہ نقصان سے بچا جاسکے۔سپیکر کو اگر اس قانون کے اطلاق سے متعلق باور کرایا جاتا ہے تو یہ ان کی آئینی ڈیوٹی ہو گی کہ وہ اس قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل کو ممکن بنائیں، ورنہ منحرف اراکین کو آئین شکنی کی اجازت دینااور اس بنیاد پر وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو دستیاب آئینی تحفظ سے محروم کرنا قطعی طور پر آئین کی منشانہ ہے، درحقیقت قانون پر صرف عمل نہیں کرنا بلکہ اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے، یہی قانون کا بنیادی مسلمہ اصول ہے۔

مزیدخبریں