سیاسی صورتحال لمحہ لمحہ بدل رہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ تصادم ہوا تو خونریز ہو گا، خونریز ہو گا تو کیا ہو گا۔ ایسا سوچتے ہوئے بھی دل کانپ کانپ جاتا ہے۔ ’’کہیں ایسا نہ نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے‘‘۔ تحریک عدم اعتماد جمہوری عمل، اس پر رد عمل غیر جمہوری، آئین میں دی گئی تعداد کے مطابق اپوزیشن 172 بندے (ارکان اسمبلی) لے آئی تو بندہ (وزیر اعظم) گیا اس میں ہینکی پینکی کی کیا گنجائش، مگر ہو رہی ہے۔ معاملات بیان بازی اور ہرزہ سرائی کے ساتھ ساتھ عدالتوں تک پہنچ گئے۔ اپوزیشن کی خوش قسمتی کہ پی ٹی آئی کے دو درجن سے زائد ارکان قومی اسمبلی آصف زرداری کی پناہ میں سندھ ہاؤس پہنچ گئے۔ اپوزیشن کے پاس 163 اور حکومت کے پاس 178 ارکان تھے۔ 24 یا بعض اطلاعات کے مطابق 3 وفاقی وزرا سمیت 33 ارکان نے ’’سیاسی پناہ‘‘ حاصل کر لی۔ حکومت کی جھولی خالی صرف 145 ارکان رہ گئے۔ اپوزیشن کی گود 196 ارکان سے بھر گئی۔ جمہوریت میں یہی کچھ تو ہوتا ہے کوئی بھی شخص تا حیات اقتدار میں نہیں رہتا۔ رہنا بھی نہیں چاہیے مطلق العنانیت سے ملک میں انارکی پھیلتی ہے، ایک وفاقی وزیر نے طنزاً کہا کہ کیا ہارس ٹریڈنگ آئینی ہے؟ جواب ملا گھوڑے خود ہی محفوظ اصطبل میں پہنچ جائیں تو ٹریڈنگ کہاں ہوئی۔ باغی ارکان نے چیلنج کیا کہ کروڑوں اربوں لے کر اپوزیشن کی حمایت کا الزام ثابت کر دیں۔ ہمیشہ کے لیے سیاست چھوڑ دیں گے۔ اتحادیوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا۔ حالات جس رخ پر جا رہے ہیں وہ بھی آج کل میں فیصلہ کر لیں گے۔ رجحان اپوزیشن کی طرف ہے اکثریت نے کہہ دیا کہ وزیر اعظم استعفے دے دیں، پی ٹی آئی کے ایک سمجھدار ایم این اے نجیب ہارون نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اپنی جماعت کی پالیسی کے ساتھ کھڑا ہوں پارٹیوں میں ناراضی ہوتی رہتی ہے ایک بار تو استعفیٰ بھی دے چکا ہوں۔ وزیر اعظم جماعت کی قربانی کے بجائے اپنی قربانی دے دیں، کسی اور کو لے آئیں تاکہ 2023ء تک پی ٹی آئی کی حکومت برقرار رہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے پی ٹی آئی کے بانی رکن کو بھی یہ کہہ کر ڈانٹ پلا دی کہ ’’اپنی اوقات میں رہ کر بات کریں‘‘۔ ماشاء اللہ کیا انداز گفتگو ہے چھوٹے بڑوں کے منہ آنے لگے ہیں۔ ادھر سے ایک ہی رٹ کہ مائنس ون فارمولا قابل قبول نہیں، ضمیر فروشوں سے بلیک میل نہیں ہوں گا۔ کسی دل جلے نے کہا یہ سب لوگ2018 ء کے انتخابات سے قبل ضمیر بیچ کر ہی آپ کے ساتھ آ ملے تھے۔ اس وقت تو سارے معصوم با ضمیر اور ملک کے چنیدہ پاک صاف سیاستدان تھے، اب تک آپ کے ساتھ رہے، حالات کی آندھی سے اڑ کر سندھ ہاؤس پہنچ گئے تو بے ضمیر کیسے ہو گئے؟ کبھی اس پہلو پر بھی سوچا ہے کہ 22 سالہ محنت سے جو ٹیم بنائی تھی وہ بک گئی۔ غم اکثریت کے جانے کا نہیں کچھ اور ہے، جس کی پردہ داری ہے۔ بعض اوقات منہ سے غلط باتیں نکل جاتی ہیں جن کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ بزرگ کہا کرتے تھے سو بار سوچو ایک بار بولو، یہاں سو بار بول کر ایک بار سوچنے کی بھی عادت نہیں ہے۔ قرآن کریم میں حکم ربی ہے، ’’لوگوں کو بُرے ناموں اور القاب سے مت پکارو (مفہوم)‘‘۔ جنہیں بُرے ناموں سے پکارا گیا انکے علاوہ دیگر ’سمجھدار‘ لوگوں کو بھی بُرا لگا۔ انہوں نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کی۔ سمجھ سمجھ کے بھی جو نہ سمجھے اس سے کسی نہ کسی طور اظہار ناراضی تو کیا جائے
گا، چنانچہ کہیں نہ کہیں سے سمجھا گیا کہ ’’اب اگر عظمت کردار بھی گر جائے گی/ آپ کے سر سے یہ دستار بھی گر جائے گی‘‘۔ فی الحال اپوزیشن کا پلڑا بھاری، حکومت پریشان ہے لیکن اپنی کارکردگی پر پشیمان نہیں۔ جمہوریت میں یہ بھی ایک خرابی ہے کہ حکمرانوں کو پریشانی ہوتی ہے خراب کارکردگی پر پشیمانی نہیں۔ پریشانی دور کرنے کے لیے روز ماہرین قانون، ترجمانوں اور مشیروں کے اجلاس طلب، 8 مارچ سے اب تک مشیروں اور ماہرین قانون کی جانب سے 14 تجاویز، روز تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے ایک نسخۂ کیمیا لیکن اب تک ہر تجویز ناقابل عمل، منحرف ارکان کیخلاف آرٹیکل 63 اے ون کے تحت تاحیات نا اہلی کا ریفرنس داخل کرنے، مانیٹرنگ، گھروں کی نگرانی، مظاہروں، احتجاج سمیت ہر طرح انہیں قابو کرنے کی تدابیر مگر الٹی ہوگئیں سب تدبیریں۔ ’’بڑی رونقیں ہیں بلاول کے ڈیرے‘‘ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں ایک ہفتہ باقی مگر روز اول سے للکارنے دھمکیاں دینے اور تند و تیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈی چوک پر 10 لاکھ افراد جمع کرنے کے اعلان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پی ڈی ایم والوں نے بھی پتا نہیں کتنے لاکھ افراد کے ساتھ ڈی چوک کا رُخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اتنے لوگ کہاں سمائیں گے، 10 لاکھ سے تو اسلام آباد بھر جائے گا۔ اپوزیشن کے ارکان کہاں ڈیرہ ڈالیں گے۔ ان سے کہا جائے گا۔ ’’تم کہاں جاؤ گے کچھ اپنا ٹھکانہ کر لو‘‘۔ اس پر تصادم ہو گا، تصادم خلاف روایت نہیں، 2018ء میں یہی کچھ ہوا تھا، سندھ ہاؤس پر دھاوا اپنے ہی ارکان کے گھروں پر احتجاج، مظاہرے اسی روایت بد کا تسلسل ہیں۔ اہم سوال کہ منحرف ارکان اور اتحادی 28 مارچ کو ووٹنگ کے دن ایوان میں کیسے پہنچیں گے۔ فواد چودھری دھمکی دے چکے کہ کس مائی کے لعل میں ہمت ہے کہ 10 لاکھ مجمع سے گزر کر ایوان میں جائے اور مخالف ووٹ دے کر واپس چلا جائے، ان ہی دھمکیوں کے باعث روز بد دیکھنا پڑتے ہیں۔ دھمکیاں آئین کے کس آرٹیکل کے تحت دی جاتی ہیں؟ ’’گلدستے پر یکجہتی لکھ رکھا ہے گلدستے کے اندر کیا ہے سچ بولو‘‘، سپیکر قومی اسمبلی کی طلبی، مختلف ہدایات، منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہ کرنے کے شگوفے، ’’جب قصر گر رہا ہے تو معمار کیا کرے‘‘۔ سیاسی منظر نامے پر شعلے بھڑکتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومتی پارٹی کا مسئلہ کیا ہے؟ اتحادیوںکو سنبھالنے نکلی تھی اپنی جھولی میں چھید ہو گئے۔ انشا جی نے کہا تھا ’’جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا‘‘ کیسے ارکان ہیں ساڑھے تین سال کے دوران اتنی تقریروں اور بھاشنوں کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ’’تھُڑے کہیں کے‘‘ کہتے ہیں صرف تقریروں سے عوام کا پیٹ نہیں بھرتا، مہنگائی ختم کریں۔ کہاں سے کریں گے، پیٹرول میں 10 روپے کی کمی کر کے آئی ایم ایف کو ناراض کر لیا۔ 6 ارب قرضے کی اگلی قسط کھٹائی میں پڑ گئی۔ پیٹرول سستا کرنے کا مہنگائی پر کیا اثر پڑا؟ رمضان المبارک کے قریب آتے ہی یوٹیلٹی سٹورز نے چاول، بیسن اور گھی کی قیمتیں بڑھا دیں۔ صاحب جی گھی 479 روپے کلو دستیاب ہے۔ چاول اور بیسن کے دام 40 روپے اور 25 روپے مزید بڑھ گئے۔ معمولی بخار کے ٹیسٹ 5 ہزار اور دوائیں پندرہ سو دو ہزار میں مل رہی ہیں۔ ’’آپ کہتے ہیں کچھ ہوا ہی نہیں‘‘۔ ارکان کا شکوہ بجا ہے کہ ان کے اضلاع میں ترقیاتی سکیموں کے لیے فنڈز نہیں دیے گئے، وہ عوام کو کیا منہ دکھائیں گے۔ پرویز خٹک کو ترین گروپ کے پیچھے لگا دیا گیا۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ہٹانے کی شرط لگا دی، اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھ سکا۔ منحرف ارکان کے خلاف دہرا ایکشن، ایک طرف منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہ کرنے کی تجویز ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے تدابیر، سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کی تیاریاں، ارکان کو شوکاز نوٹس، سات روز کی مہلت اور دوسری طرف منانے کی کوششیں، ماشاء اللہ جہاں وزیروں مشیروں اور ترجمانوں کے ڈھیر لگے ہوں گے وہاں اس قسم کے ڈھیروں اقدامات بھی ہوں گے۔ ووٹنگ میں 8 دن باقی، کیا سوچا ہے؟ روز بروز دلوں کی تلخیاں بڑھنے سے فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں۔ سندھ ہاؤس پر ناگہانی حملے کے بعد سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون کی درخواست کی سماعت کی اور حکم دیا کہ کارکنوں کو پُر امن رہنے کی ہدایت کریں۔ عدالت عظمیٰ کا بروقت اقدام تصادم روکنے کی واحد امید۔ سوال اپنی جگہ کہ کیا 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو سکے گی؟ کیا منحرف ارکان بدلے ہوئے ضمیر کے ساتھ آزادانہ ووٹ ڈال سکیں گے؟ ’’کوئی امید بر نہیں آتی / کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘۔ پوری قوم اندیشوں میں گھر گئی ہے۔ کسی نے کہا صدر مملکت 27 مارچ کو ایمرجنسی کا اعلان کر دیں گے مگر اس میں مشکل یہ کہ اعلان کے دس روز بعد تک دونوں ایوانوں سے منظوری مشکل ہو گی۔ دور افق پر اندھیروں کا راج، کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں ایک با خبر سیانے کا کہنا ہے کہ چار بڑے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں، تین سے چار روز میں ’’اہم فیصلے‘‘ متوقع ہیں۔ جن سے فریقین کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا البتہ یہ فیصلے ملک کے لیے سود مند ثابت ہوں گے۔ ویسے حکومتی اہلکاروں کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ گھبرانا نہیں، کوئی نہ کوئی جگاڑ کر لیں گے۔ کیا کوئی بڑی خبر آنے والی ہے؟