شدت پسندی

شدت پسندی

گزشتہ کئی سال سے ہمارا معاشرہ عدم برداشت کی آخری حدود کو چھو رہا ہے۔ پاکستان میں سیاسی اور مذہبی شدت پسندی اب اپنے بام عروج پر ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک کی سیاست اور سیاسی رویوں میں روزِ اول سے ہی عدم برداشت، نفرت اور شدت پسندی کے ایسے کانٹے بچھائے جاتے رہے ہیں جنہیں چنتے چنتے ہماری نسلیں بیت جائیں گی۔ چند سال پہلے مذہبی جماعتیں فرقہ واریت کا نام لے کر سیاست کیا کرتی تھیں، لیکن آج کل ہمارے سیاست دان جس نوعیت کی سیاست کر رہے ہیں اس سے خانہ جنگی کے حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ملکی سیاست میں دن بہ دن بڑھتی شدت پسندی نئی نسل میں ایک شدید عدم برداشت کے المیے کو جنم دے رہی ہے۔ حکمرانوں سمیت تمام سیاسی جماعتیں اپنے جلسے جلوسوں میں جو آگ برساتا لبَ و لہجہ پیش کرتے نظر آتے ہیں وہ کسی طور بھی ایک اسلامی ریاست کے پڑھے لکھے حکمرانوں کا نہیں ہو سکتا۔ اخلاقیات انسانی زندگی کا ایک انتہائی اہم جزو ہے اور دین اسلام میں بھی روزِ اول سے اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اخلاقی اقدار کا تحفظ اور ترویج کسی بھی معاشرے کی بہتری اور نشونما کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے، بدقسمتی سے ہمارا معاشرے گزشتہ کئی دہائیوں سے تنزلی کا شکار ہے جس کے باعث زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان میں نظریاتی سیاست کا راج ہوا کرتا تھا مگر اب صرف شدت پسندی، عدم برداشت، مفاد پرستی اور منافقت کی سیاست باقی رہ گئی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ شدت پسندی، انتہا پسندی، عدم برداشت، تعصب اور نفرت پر مبنی سوچ کو ہم کسی ایک طبقے تک محدود یا منسلک نہیں کر سکتے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مذہب کے نام پر انتہا پسندی، فرقہ وارانہ تشدد، قتل و غارت گری کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا 
جا رہا ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کا مشال خان ہو یا خوشاب کا بینک منیجر یا سانحہ سیالکوٹ کا واقعہ ہو یا میاں چنوں کے ساتھ واقع شہر تلمبہ کا واقعہ جہاں شدت پسند عناصر خود ہی قاضی بن کر اپنی منشا کے مطابق فیصلہ کر کے سارے ریاستی نظام کا جلوس نکال دیتے ہیں۔ ایسے نام نہاد مسلمانوں اور شدت پسند عناصر کے لیے شاعر لکھتے ہیں
الزام لگاؤ مار بھی دو
دامن سے مٹی جھاڑ بھی دو
مسلمان بھی کہلاؤ اور پھر
ماؤں کی گود اجاڑ بھی دو
ہر بار ایسے کسی سانحہ کے بعد اٹھنے والے مذمتی بیانات اور واویلے کے بعد حکومتی سطح پر اس سانحے کو آخری واقعہ قرار دیتے ہوئے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی کراتے نظر آتے ہیں۔ مگر ہر دفعہ ان تمام واقعات کی روک تھام میں حکومتی اور ریاستی حکمتِ عملی ناکام نظر آتی ہے۔ نوے کی دہائی میں سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی سیاسی حریف تھیں مگر رفتہ رفتہ ان پارٹیوں کا سیاسی اختلاف سیاسی دشمنی کا روپ دھارتا چلا گیا۔ اس وقت کے سیاسی رہنما ذاتی نفرت کی آگ میں اس قدر آگے بڑھتے چلے گئے کہ کارکنوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا۔ مخالفت برائے مخالفت میں اخلاقیات کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے غیر اخلاقی الزامات اور کردار کشی ہماری سیاست کی پہچان بن کر رہ گئی۔ بقول شاعر
کہتا تھا عزازیل خداوندِ جہاں سے
پرکالۂ آتش ہوئی آدم کی کفِ خاک
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہِ افلاک
ہماری سیاسی اشرفیہ آج بھی اپنے سیاسی مقاصد و مفادات کے حصول کے لیے کبھی امیرالمومنین اور کبھی ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگاتی نظر آتی ہے۔ آج جو سیاسی شدت پسندی ہمارے معاشرے میں دیکھنے کو مل رہی ہے وہ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک اور خوفناک ہے۔ ہمارے سوشل میڈیا نے شدت پسندوں اور انتہا پسندوں کا کام پہلے سے کئی گنا زیادہ آسان کر دیا ہے۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے سوشل میڈیا ونگز اور بڑے بڑے نامور گروپ بنا رکھے ہیں جو سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس اور ایپس کے ذریعے بڑے ہی منظم انداز میںکام کرتے ہیں۔ ان کا کام ہی مخالف جماعت کے رہنماؤں کی کردار کشی اور الزام تراشی کرنا ہے۔ ہمارے ہاں شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کا رجحان بھی بہت زیادہ ہے۔ بات کرنے والا سیاست دان تو اپنی بات مکمل کر کے چپ ہو جاتا ہے مگر حمایتی اس بات کے دفاع میں تمام تر حدود کو عبور کرتے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے تقریباً سب ہی سیاسی پیروکاروں پر یہ شعر بالکل پورا اترتا ہے۔
یہ لوگ پاؤں سے نہیں ذہن سے اپاہج ہیں
ادھر چلیں گے جدھر رہنما چلاتا ہے
اشتعال انگیز اور نفرت و تضحیک سے بھری ہوئی تقاریر کو ہمارے سیاسی رہنما عوام میں جوش اور ولولہ پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایک جمہوری معاشرے میں سیاسی قائدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے اور انہیں اپنی اس ذمہ داری کا ہر وقت احساس ہونا چاہیے۔ ضرورتِ وقت ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کے لیے ایک ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے جس میں سیاست دانوں کو پابند کیا جائے کہ تمام سیاست دان مثبت سیاست کریں گے اور ان کا مطمع نظر ہمیشہ ہی ملک اور مذہب کا وقار ہو گا۔ وہ ہمیشہ ذاتیات کے دائرے سے باہر نکل کر بات کریں، کسی دوسرے سیاسی مخالف کے لیے نازیبا اور تضحیک آمیز بیانات جاری کرنے سے مکمل پرہیز کریں۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ سیاست دان تو آتے جاتے رہتے ہیں مگر ملک ہمیشہ قائم رہتے ہیں اور ملک کا وقار، استحکام اور عزت از حد ضروری ہے۔ حالات کے مطابق جارحانہ اور شدت پسندانہ ماحول بنا کر پارلیمانی نظام کو شدید خطرے میں ڈال دیا گیا ہے جس کا نتیجہ صدارتی نظام اور قومی حکومت کی صورت میں مل سکتا ہے۔

مصنف کے بارے میں