آپ 2008سے شروع ہو جائیں ، 2008میں پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت سنبھالی ، پی پی کو یہ حکومت بینظیر بھٹو کی شہادت کے عوض ملی تھی ، پی پی کو ہمدردی کا ووٹ ملا اور زرداری صاحب اتحادیوں کو ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔اس اتحاد میں ن لیگ پیش پیش تھی مگر کچھ ہی عرصہ بعد یہ اتحاد پیش کے بجائے زیر ہو گیا ۔ ن لیگ حکومت سے الگ ہوئی اور باقی مدت حکومت کو گرانے ، یوسف رضا گیلانی کو عدالت سے نااہل کرانے اور زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے میں گزار دی ۔ اس سارے دورانیے میں ملک دو دھڑوں میں تقسیم رہا، یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے نااہل کیا تو ن لیگی کارکنوں نے ملک بھر میں جشن منایااور مٹھائیاں تقسیم کی ۔ ن لیگ کو کوئی دھچکا لگتا تو پی پی کے کارکن جشن مناتے سڑکوں پر نکل آتے ، ان دونوں ہاتھیوں کی لڑائی میں ملکی معیشت ، ادارے ، سماجی استحکام تباہ اور قوم تقسیم ہوئی مگر کسی کو احساس نہ ہوا ۔ 2011میں مینار پاکستان جلسے کے بعد تحریک انصاف کو پذیرائی ملنا شروع ہوئی اور اصل کھیل 2014کے بعد شروع ہوا، عمران خان نے نوجوان نسل میں ہیجان انگیزی کی ایسی آگ لگائی کہ پورا ملک جل اٹھا ، چینی صدر کا دورہ منسوخ ہوا تو یہاںجشن منایاگیا ، ملک میں دہشت گردی کی لہر شروع ہوئی تو انصافیوں نے پوائنٹ سکورنگ شروع کر دی ، غرض اس پانچ سالہ دور میں ملک کو جب جہاں نقصان ہوا تحریک انصاف اور پی پی کی طرف سے اس پر طنز ، پوائنٹ سکورنگ اور خوشی کا اظہار کیا گیا ۔ 2018کے بعد یہ بے حسی اور ملک سے بے وفائی عروج کو پہنچی ،ایک تو تحریک انصاف حکومت چلانے کی اہل ہی نہیں تھی اوپر سے پی پی اور ن لیگ نے مل کر تحریک انصاف حکومت کو ناکام بنانے کی بھرپورکوشش کی ، کرونا کے دنوں میں معیشت وینٹی لیٹر پر رہی مگر ن لیگ اور پی پی کے کارکن جشن مناتے رہے ، ن لیگ یا پی پی کی طرف سے کوئی غلطی یا نااہلی سرزد ہوتی تو تحریک انصاف کے ٹائیگرز اسے ـ’’سیلیبریٹ ‘‘ کرنے کے لئے سڑکوں پر نکل آتے ۔پچھلے تین چار سال سے یہ معرکہ مین سٹریم میڈیا، سوشل میڈیا اور تعلیمی اداروں میں بھرپور طریقے سے لڑا جا رہا ہے ۔آپ پچھلے تین چار سال سے سماج کی اجتماعی نفسیات کا تجزیہ کریں آپ کو نظر آئے گا یہ سماج سماج کم اور سٹیج ڈرامے کے اداکاروں کا گروہ زیادہ ہے ، تیل کی قیمتیں تحریک انصاف کے دور میں بڑھیں تو ن لیگ اور پی پی کے کارکن طنز اور پوائنٹ اسکورنگ کا مورچہ سنبھال لیتے ہیں اور یہی قیمتیں اب ن لیگ کے دور میں بڑھ رہی ہیں تو نائی کا استرا تحریک انصاف کے ہاتھ میں ہے ۔ اس ساری لڑائی میں ہم نے کبھی ’’ پاکستان ‘‘ کا سوچا ، ہم نے کبھی ’’ ملک ‘‘کا سوچا اور ہم نے کبھی غور کیا کہ ہمارے انہی رویوں کی وجہ سے پاکستان آخری سانسیں لے رہا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم پون صدی گزرنے کے
باوجود ایک قوم نہیں بن سکے ، ہم آج بھی انصافی ہیں ، لیگی ہیں ،سندھی ہیں ، جمعیتی ہیں یا پھر بلوچی یا پختون ۔ ہم پاکستانی نہیں ہیں ، ہم پاکستان کے بجائے اپنی جماعتوں کے وفادار ہیں ، ہم اپنی جماعتوں کے لئے لڑتے ہیں ، انہی کے لئے مرتے ہیں ، اپنی جماعت کے دائرے میں رہ کر سوچتے ہیں اور پاکستان کے بجائے صرف اپنی جماعت کو ہی پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ ایک لمحے کے لئے سوچیں کیا اس طرح یہ ملک آگے بڑھ سکتا ہے ، کیا ہم قوم کہلانے کے حق دار ہیں اور کیا ہم پاکستان سے بے وفائی کے مرتکب نہیں ہو رہے ؟
آپ لکھ لیں ہم جب تک ان رویوں سے باہر نہیں نکلیں گے، ہم اپنی جماعتوں کے بجائے اپنے ملک کے لئے نہیں سوچیں گے اور ہم انصافی ، لیگی، پی پی یا جمعیتی کے بجائے پاکستانی بن کر سیاست نہیں کریں گے ہم ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکیں گے ۔ ہم جب تک سماج میں ان رویوں کو ڈویلپ نہیں کریں گے ہم ملکی معیشت اور سماجی استحکام پیدا نہیں کر سکیں گے اور اگر ہم یہ دونوں کام نہ کرسکے توخاکم بدہن ہم عنقریب دیوالیہ ہو جائیں گے ۔ اس لئے آج کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم صرف اور صرف ’’ پاکستانی‘‘ بنیں، ہم سیاسی فرقہ واریت اور سیاسی گروہ بندی کے بجائے ایک قوم بن جائیں ۔آج وہ تمام آیات جنہیں مذہبی فرقہ واریت کے لئے مستدل بنایا گیا تھا ضرورت ہے کہ انہیں سیاسی فرقہ واریت کے خلاف مستدل بنایا جائے ۔ مثلا سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو‘‘آج اس آیت کا مصداق ہمارے ملک اور سماج سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے ۔ اسی سورۃ میں آگے چل کر ارشاد فرمایا :’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور جب ان کے پاس واضح نشانیاں آچکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے اور انہی لوگوں کے لئے سخت عذاب ہے‘‘۔سورہ انعام کی اس آیت پر غوکریں: ’’بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی چیز میں ان کے ذمہ دار نہیں ہیں، ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ کرے گا جو وہ کرتے تھے۔‘‘ سورہ روم کی آیت پر نظر دوڑائیں: ’’اور نہ اْن لوگوں میں ہونا جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور وہ گروہ در گروہ ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اْن کے پاس ہے۔‘‘اللہ تعالی نے قرآن کی سورۃ قصص کی آیت نمبر چار میں فرعون کا ایک بڑا جرم یہ قرار دیا ہے کہ وہ اپنے رعایا کو جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم کرتا تھا،گویا لوگوںکو گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم کرنا فرعونی طرز عمل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایاہے۔اسی طرح اس ضمن میں ایک حدیث بھی موجود ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ مجلس میں تشریف فرما تھے ، آپ ﷺنے فرمایا میں نے اللہ سے تین دعائیں کی جن میں سے دو قبول ہو گئیں اور ایک رد کر دی گئی ۔ صحابہ کرامؓ نے تفصیل جاننا چاہی تو آپؐ نے فرمایا میں نے اللہ سے دعا کی میری امت پر کوئی اجتماعی عذاب نازل نہ ہو جو قبول کر لی گئی ، میں نے دوسری دعا کی میری امت پر باہر سے کوئی دشمن مسلط نہ ہو یہ دعا بھی قبول ہو گئی ، میں نے تیسری دعا کی کہ میری امت کو باہمی لڑائی اور فتنہ و فساد سے محفوظ رکھنا تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا رد فرما دی ۔ نبی اکرم ﷺ کو اندازہ تھا کہ یہ امت باہمی لڑائیوں اور تفرقہ بازی کا شکار ہوگی کیونکہ انسان حرس،ہوس، حسد، لالچ، حب جاہ اور دولت کا حریص ہے اور یہ ایسی کمزوریاں ہیں جو انسان کو تفرقہ میں ڈال دیتی ہیں ، اسی لئے آپؐ نے اللہ سے دعا کی جو قبول نہ ہو سکی ۔
آج ہمیں قرآن کی ان آیات اورحدیث کی روشنی میں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے ، ہم مذکورہ رویوں کے ساتھ صرف اپنے ملک کو ہی نصان نہیں پہنچا رہے بلکہ ہم قرآنی ہدایات کا بھی انکار کر رہے ہیں ۔آج ہمیں ضرورت ہے کہ اپنی سیاسی وسماجی سرگرمیوں کو قرآنی ہدایات کی روشنی میں ترتیب دیں، سیاسی فرقہ واریت اور سیاسی گروہ بندی کے بجائے ایک قوم بن کر آگے بڑھیں اور اگر ہم یہ نہیں کرتے توایسی اقوام کا جو انجام قرآن نے بتایا ہے وہ بہت بھیانک اور خوفناک ہے ۔
آپ خود سوچیں !
10:52 AM, 21 Jun, 2022