زندگی کے لمحے پانی کے بہاؤ کی طرح ہوتے ہیں جو جڑے بھی رہتے ہیں اور گزر کر ٹوٹتے بھی نہیں یعنی جدا نہیں ہوتے اور نہ لوٹتے ہیں۔ انسان کا جس گمان سے بدن کانپ جاتا ہے وہ واقعات وقوع پذیر ہو کر گزر بھی جاتے ہیں اور انسان برداشت بھی کر چکا ہوتا ہے گو کہ اس کا روگ انسان کی سانس کا حصہ بن جایا کرتا ہے بہرحال ابھی کل کی بات ہے کہ ابا جی کو ان کے یوم ولادت پر ہیپی برتھ ڈے کہتا تھا نئے سال کی مبارکباد دیتا تھا فادر ڈے پر وِش کرتا تھا یہی صورت حال باقی بہن بھائیوں کی تھی مگر زندگی اور عافیت کی دعائیں کب مغفرت کی دعاؤں میں بدلتی ہیں یہ سب ہمارے اللہ کو علم ہے اگلے دن فادر ڈے مدر ڈے انسانوں سے منسوب دن اگر قدر زندگی میں ہی کر لی جائے تو یاد اطمینان کا احساس دیتی ہے اور خدانخواستہ اگر کوئی کوتاہی بھرتی گئی ہو تو وقت پلٹا نہیں کرتا۔ اللہ کریم سب کو ہر رشتے کی قدر زندگی میں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آج کی دنیا میں رواج عام ہے کہ سال کو کسی نہ کسی کے ساتھ منسوب کرتے ہیں زمین، سائنس، تعلیم کسی بھی موضوع کو یا شخصیت کو منتخب کر کے سال سے منسوب کر دیا جاتا ہے سوشل میڈیا کے گریجوایٹس اس علم سے محروم ہیں کہ دنیا میں پہلی بار سال کو منسوب اور نام میرے آقا کریمﷺ نے دیا تھا۔ جب ام المومنین جناب سیدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ، جناب حضرت ابو طالبؓ کا انتقال ہوا اپنے اللہ سے وصال ہوا تو آقا کریمﷺ نے صحابہ اجمعین سے بیعت لی اور اس سال کو عام الحزن قرار دیا یعنی غم کا سال۔ آگے جو تین روزہ سوگ یا غم کی بات کرتے ہیں وہ جانیں یا ان کا احساس۔ ورنہ غم کے دنوں کا تعین نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی احساس کو قید کیا جا سکتا ہے خیال پر قدغن لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی یادوں کے دریچے بند ہو سکتے ہیں لیکن زندگی ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی۔ اللہ کریم فرماتا ہے کہ ہم دنوں کو انسانوں میں پھیرتے رہتے ہیں (مفہوم) لہٰذا تغیر ہی زندگی ہے۔ اللہ کریم سب کی زندگیوں میں ہر گزرے لمحے کے ساتھ مثبت تغیر لائے۔ آج میرا دل تو تھا کہ کوئی دل لگی کرتا کچھ گزرے دنوں کی خوش کر دینے والی باتیں آپ لوگوں سے کرتا لیکن ایسا پلٹا کہ قلم بھی اس کا تابع ہو گیا۔ آتے ہیں یادوں کی طرف۔
میں نے جو اپنے ابا جی، پاء جی اعظم صاحب شہید اور بھائیوں سے سیکھا وہ یہ کہ دوستوں کے ساتھ شفافیت کے ساتھ چلنا چاہئے، مشکل وقت میں دوست کا ساتھ رشتہ دار کا ساتھ اور مداوا بننا چاہئے اگر وہ عروج پاتا ہے تو پھر اس کا رویہ ہی تعلق کو آگے بڑھا سکتا ہے مگر خودداری کی تدفین کر کے تعلق کو زندہ نہیں رکھا جا سکتا انسان کی جس کے متعلق جو رائے یا احساس ہو اس تک ضرور پہنچنا چاہئے اگر مثبت ہے تب بھی اور اگر منفی ہے تب بھی البتہ منفی کی صورت کسی کا نقصان نہیں کرنا چاہئے۔
جناب ارشد میر ایڈووکیٹ پنجابی کے لکھاری تھے ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ میر صاحب یہ جواز گناہ بد تر از گناہ کا کیا مطلب ہے۔ میر صاحب کہنے لگے کہ ایک نواب صاحب رات گئے زرق برق پہناوے میں محل سے باہر ملحقہ باغ نما کھلے علاقے میں درختوں سے لگے پھول پودے دیکھ رہے تھے مناسب قد کاٹھ کے تھے کہ اچانک دربان نے آ کر پیچھے سے اپنی بانہوں میں لے لیا۔ نواب صاحب سخت غضبناک ہوئے اور غصے سے بولے ناہنجار یہ کیا کر رہے ہو؟ دربان گھبرا گیا اور برجستگی سے بے اختیار بولا سرکار معاف کیجئے گا میں سمجھا تھا بیگم صاحبہ ہیں۔ میر صاحب کہتے ہیں یہ ہے جواز گناہ بد تر از گناہ۔ آج ہماری معاشرت، سیاست اور سماج میں اپنے عمل کا جو بھی جواب پیش کرتے ہیں وہ بذات خود ایک وضاحت طلب بلکہ قابل گرفت موقف بن جایا کرتا ہے۔بس! قصہ صرف یہ ہے کہ اللہ کریم دنوں کو انسانوں میں پھیرتا رہتا ہے۔ میں اپنی دادی جو اکثر میرے دادا کو یاد کرتی تھیں اُن سے کہتا کہ بے بے جب دادا تھے تو یہی سورج چاند ستارے موسم اور سہ پہر کا وقت جو کہ عام طور پر کھیل کود کا وقت ہوا کرتا ہے، اسی طرح ہی ہوتا تھا۔ میری بے بے (دادی) کہتیں کہ ہاں یہی چاند ستارے یہی دن رات یہی موسم اور یہی سہ پہر کا وقت ہوا کرتا تھا۔ آج میں سوچتا ہوں کہ والدین ہیں نہ دادی اور پاء جی اعظم شہیدؒ اور معظم بھائی بھی جنت مکین ہوئے مگر یہی چاند، سورج، ستارے اور موسم ہیں مگر وہ نہیں ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر میں مہمانداری بہت تھی میرے اباجی کے گھر شاید ہی پوری زندگی میں، میں نے کوئی دن دیکھا ہو کہ ناشتہ، لنچ یا ڈنر ہم گھر والوں نے اکیلے کیا ہو۔ میرے کزن، چاچے، تائے، جو ابا جی کے کزن تھے کے بچے، محلے کی عورتیں بھی سالن روٹی منگوا لیا کرتی تھیں گویا سارا دن یہی کھانا پکانا چلتا تھا۔ میں نے نیا نیا لکھنا سیکھا شاید پہلی دوسری کلاس میں ہوں گا کہ گھر میں ایک جگہ جس کو آج کل فائر پلیس کہتے ہیں صحن میں تھی جس کے نیچے چولہے پر دودھ کڑتا رہتا اور چمنی دھواں چھوڑ رہی ہوتی۔ میں نے اپنی والدہ صاحبہ کو شاید زندگی میں اتنا خوش نہیں دیکھا جتنا ایک اس واقعہ پر دیکھا، میری والدہ کا نام غلام زہرہ بی بی ہے میں نے اس آتش دان کے ماتھے پہ چاک کے ساتھ لکھ دیا ’’زہرہ ہوٹل‘‘ میں نے سوچا کہ سارا دن کھانا پکانا یہ تو ہوٹل ہی ہے۔ میری اماں جی بہت خوش آنکھیں گال خوشی سے سرخ اور میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کہ میری اماں جی کتنی خوش تھیں کبھی میری دادی (بے بے) کو پڑھاتیں ،میری پھوپھی آمنہ بی بی کو پڑھایا، ہمسائی عورتوں کو پڑھایا کہ دیکھو میرے بیٹھے آصف نے کیا لکھا ہے۔ پوچھنے پر بتاتیں ’’زہرہ ہوٹل‘‘ ۔ میرے بڑے بہن بھائیوں کو پڑھایا ، شام کو اباجی گھر آئے انہیں پڑھایا۔ میں سمجھا کہ میری والدہ جن کو میں شاہ شمس تبریز کی پیروکار اور اللہ اور آقا کریمﷺ کی غلام، غلام زہرہ بی بی ہونے کی وجہ سے شاہ جی کہتا تھا اس لیے خوش ہیں کہ میرے بیٹے نے لکھنا سیکھ لیا مگر آج میں سوچتا ہوں کہ نہیں میری والدہ کی خوشی دراصل ان کی ان تھک محنت لازوال لگن گھر گرہستی کی Acknowledgment تھی ان کی خدمات کا اعتراف تھا اس اعتراف نے میری اماں جی کو خوش کر دیا۔ بلاشبہ ملازم اور ملازمائیں بھی تھیں مگر تب خواتین خانہ خود بھی کام میں جت جاتیں اور نگرانی کرنا بھی بہت اہم ہوتا ہے آج لڑکیاں تو نگرانی میں کام کرانا بھی عذاب سمجھتی ہیں۔ شاید گزرتے وقت میں ہمیں اپنے بڑوں کی شفقت، مشقت اور قربانی کا احساس نہیں ہوتا ہم اعتراف نہیں کر پاتے اور پھر سارا اظہار دن منانے میں کرتے ہیں، مجھے خوشی ہوئی کہ میرے بچوں نے میرے طرح یہ دن منایا اور مجھے گفٹ دیئے۔ یادیں، اداسیاں، احساس، تغیر ہی زندگی ہے اللہ دنوں کو انساں میں پھیرتا رہتا ہے۔