اتوار 17جولائی کو پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 20نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ دن بھر خوب گہما گہمی رہی اور شام ڈھلے پولنگ سٹیشنز سے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حاصل کردہ ووٹوں کے اعدادوشمار سامنے آنے لگے تو کسی حد تک یہ ظاہر ہونا شروع ہو گیا کہ ووٹرز کا رجحان کیا رہا ہے اور کامیابی کا پلڑا پاکستان تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن) میں سے کس کے حق میں جھکنے والا ہے۔ تاہم یاس و امید کا عالم پھر بھی قائم رہا جو شب 12بجے کا گجربجنے سے بہت پہلے اس صورت میں اختتام پذیر ہوا کہ غیر حتمی انتخابی نتائج کے مطابق 20میں سے 15نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی کا پھریرا لہرایا تو 4نشستیں مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئیں اور1نشست آزاد امیدوار کا مقدر ٹھہری۔
بلا شبہ یہ انتخابی نتائج ایسے ہیں جن کی توقع نہیں کی جارہی تھی ۔ تقریباً سبھی تجزیوں، جائزوں ، مستند اور معتبر تجزیہ کاروں کی رائے میں کہا جارہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ(ن)کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو گا اور 19/20کے فرق سے نتائج سامنے آئیں گے۔ مقابلہ بلا شبہ کانٹے دار رہااور اس میں جوش و جذبہ ، بھاگ دوڑ ، فریقین کی طرف سے بھر پور اور زوردار انتخابی مہم چلانا اور انتخابی دائو پیچ آزمانا سبھی کچھ ہوا لیکن نتائج19/20کے فرق کی بجائے 4/15کے فرق کے ساتھ سامنے آئے۔ عام خیال یہی تھا کہ 20میں سے 10/11نشستیں پاکستان مسلم لیگ(ن)کو مل جائیں گی ۔ تحریک انصاف 7/8نشستوں پر کامیابی حاصل کر لے گی اور 2/3نشستیں آزاد امیدوار لے اڑیں گے۔ انتخابی نتائج اس کے بر عکس آئے۔ تحریک انصاف 20میں سے 15نشستیں لے اڑی ہے تو مسلم لیگ (ن) کو صرف چار نشستیں ملی ہیں جبکہ ایک نشست آزاد امیدوار کے حصے میں آئی ہے۔ یہ انتخابی نتائج جیسے بھی ہیں کسی کو پسند ہیں یا نہیں لیکن درست ،صحیح اور قابل قبول سمجھے جارہے ہیں کہ ان کی شفافیت پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی کسی مقتدر حلقے پر یہ الزام دھرا گیا ہے کہ اس نے انتخابات میں مداخلت کی ہے۔ تحریک انصاف شاداںو فرحاں ہے کہ اس نے 20میں سے 15 ، (75%)نشستیں حاصل کر لی ہیں جو اس کی توقع سے بڑھ کہیں بہت بڑھ کر کامیابی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی شکست کو تسلیم کر لیا ہے ، گویا اسے بھی انتخابی نتائج پرکوئی اعتراض نہیں ۔ اسی طرح آزاد امیدوار بھی سمجھ سکتے ہیں کہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا لیکن تحریک انصاف کے چراغ کے سامنے ان کا چراغ نہیں جل سکا۔
پنجاب کی 20صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے ان نتائج کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنا اگر زیادہ مشکل نہیں تو اتنا آسان بھی نہیں۔ بلا شبہ پنجاب میں حمزہ شہباز کی صوبائی حکومت ختم ہونے کی صورت میںوفاق میں میاں شہباز شریف کی حکومت پر اس کے یقینی اثرات مرتب ہوں گے اور میاں شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کو واضح اور دو ٹوک طور پر فوری انتخابات کے انعقاد یا قومی اسمبلی کی بقیہ مدت کے مکمل ہونے کے بعد انتخابات کے انعقاد کی راہ اپنانا ہو گی۔ ان میں کسی بھی صورت کے اختیار کرنے میں شہباز شریف کو نہ صرف شدید دبائو کا سامنا کرنا ہو گا بلکہ ایسے فیصلے بھی کرنا ہوں گے جن سے مسلم لیگ (ن) کی کھوئی ہوئی عوامی مقبولیت کو واپس حاصل کرنے میں مدد مل سکے ۔ اس کے ساتھ سب سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ جناب عمران خان جو کب سے فوری انتخابات کے انعقاد کی جارحانہ مہم چلائے ہوئے ہیں وہ ان انتخابی نتائج سے کس حد تک فائدہ اٹھا کر اپنے فوری انتخابات کے مطالبے کو پورا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔لیکن اس سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ آخر تحریک انصاف ان ضمنی انتخابات میں اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کیسے کامیاب رہی۔
عمران خان بلا شبہ اس وقت اونچی ہوائوں میں ہیں کہ ان کی انتخابی مہم اور ان کے انتقامی بیانیے نے ضمنی انتخابات کی اس کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب وہ زیادہ زور و شور کے ساتھ اپنے اس جارحانہ اور انتقامی مہم کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ اگلے دن جناب عمران خان نے عوام سے خطاب میں ایک بار پھر اپنے اس بیانیے کو دہرایا ہے کہ سیاسی استحکام سے اس بحران کے حل کے لئے فور ی اور شفاف انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی زیر نگرانی شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے۔ جناب عمران خان نے اور بھی بہت ساری باتیں کی ہیں اور بالواسطہ اور بلا واسطہ ریاستی اداروں، حکومت اور انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ جناب عمران خان کا یہ بیانیہ اپنی جگہ لیکن ان کے ایک اتحادی شیخ رشید احمد نے جس طرح کا بیانیہ اختیار کیا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر شدت پسندی کا مظہر ہے۔ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت صرف CDAکی حدود کے اندر محدود ہو کر رہ جائے گی۔اس کے شمال ، جنوب ، مشرق اور مغرب میں ضلع راولپنڈی کے علاقے ہیں جو پنجاب حکومت
کی عملداری میں آتے ہیں اور پنجاب پر جلد ہی تحریک انصاف کی حکومت کا پھریرا لہرا رہا ہو گا۔شیخ رشید احمد جیسے احسان فراموش سے یہی توقع ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی روایات اور عادات کے مطابق اسی طرح کے منفی خیالات اور متعصبانہ رویوں کا اظہار کریںتاہم اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تحریک انصاف اور اس کے قائد جناب عمران خان کس سوچ اور نقطہ نظر کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ بلا شبہ عمران خان میاں شہباز شریف کی حکومت کو ایک پل کے لئے بھی برداشت نہیں کرسکتے جب سے میاں شہباز شریف کی حکومت قائم ہوئی ہے نہ صرف اس حکومت کو اپنی تند و تیز تنقید اور گالم گلوچ کا نشانہ بناتے چلے آرہے ہیں بلکہ ریاستی اداروں جن میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پہلے نمبر پر ہے اسے سب سے بڑھ کر انتہائی نفرت انگیز تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ عسکری قیادت کے لئے میر جعفر اور میر صادق جیسے القابات استعمال کرنا اور انہیں طرح طرح کے طعنے دینا کسی صور ت میں بھی روا نہیں رکھا جا سکتا ، اس کے ساتھ دیگر ریاستی ادارے جن میں عدلیہ ، انتظامیہ، پولیس اور دوسرے ادارے بھی شامل ہیں انہیں بھی جناب عمران خان نے اپنی توپوں کے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کا یہی جارحانہ انداز جسے انتقامی مہم کا نام بھی دیا جا سکتا ہے آج کل ان کی کامیابی اور مقبولیت کا مظہر بنا ہوا ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) بلا شبہ پریشانی اور گو مگوکا شکار ہے۔ اس کی صفوں میں اس یکسوئی ، یکجہتی اور اتحاد و اتفاق اور اتفاق رائے کا اظہار سامنے نہیں آرہا ہے جو عمران خان کی جارحانہ اور انتقامی بیان بازی اور مہم جوئی کے لئے ضروری ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کرنی چاہئے تھی۔ پھر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد پیش ہو کر کامیابی سے ہمکنار ہو گئی تھی تو میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم نہیں بننا چاہئے تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میاں شہباز شریف کو حکومت سنبھالنے کے بعد فوری طور پر قومی اسمبلی تحلیل کر کے عام انتخابات کا اعلان کر دینا چاہئے تھا۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ کو کیا پڑی تھی کہ وہ پچھلی حکومت کی بچھائی سرنگوں کو صاف کرنے کے لئے مشکل فیصلے کرتی پھر تی جس سے اسے عوامی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔ یقیناً یہ ساری باتیں نصابی اور کتابی لحاظ سے درست ہو سکتی ہیں لیکن سیاست کئی عملی اقدامات کا بھی تقاضا کرتی ہے ۔ میاں شہباز شریف وزیر اعظم بنے ہیں تو انہوں نے اپنی پارٹی کے قائد اور اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کی منظور ی اور رضامندی سے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس میں محترمہ مریم نواز صاحبہ اور دوسرے پارٹی قائدین کی بھی انہیں بھر پور حمایت حاصل رہی ہے۔ دیکھا جائے تو اب مسلم لیگ (ن) کے لئے ایک ہی راہ ہے کہ وہ آگے بڑھے اور اپنے حکومتی فیصلوں سے نہ صرف ملک کی ڈوبتی معیشت کو کنارے پر لگائے بلکہ ایسے اور اقدامات بھی کرے کہ عوام میں بھی مسلم لیگ (ن) کی کھوئی ہوئی مقبولیت کو دوبارہ حاصل کی جائے۔ میرے خیال میں مسلم لیگ (ن) کے لئے یہ نجات کی راہ ہو سکتی ہے۔