پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے غیر متوقع نتائج نے ملک میں ایک ہلچل کی کیفیت پیدا کر دی ہے یقینا اس کی وجوہات پر بھی بات ہو گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ سنجیدہ سوالات نے بھی جنم لیا ہے کہ جن پر بات کرنا از حد ضروری ہے ۔عمران خان اور ان کی جماعت کے لئے زمینی حقائق کی قطعی کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک بیانیہ بناتے ہیں اور اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں اور پھر کرتے چلے جاتے ہیں اور ہٹلر کے وزیر اطلاعات گوئبلز کی طرح اس حد تک اس پر عمل کرتے ہیں کہ جھوٹ اور سچ میں تمیز ختم ہو جاتی ہے ۔ غور کریں کہ اپنی پوری انتخابی مہم میں بلکہ جب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک انھوں نے اپنی کسی بھی تقریر میں اپنے دور حکومت کی کارکردگی کا ذکر نہیں کیا ۔ لوڈ شیڈنگ پر موجودہ حکومت کو کوستے رہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے کتنے پاور پلانٹ لگائے ۔ اس کے بجائے انہوں نے شروع سے آخر تک دو باتوں پر اپنا فوکس رکھا ایک ان کے سارے مخالفین چور ہیں اور دوسرا ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کسی بیرونی سازش کا نتیجہ ہے ۔ اپنے دور حکومت میں خان صاحب جنھیں چور کہتے ہیں ان کے خلاف کوئی ایک ٹھوس ثبوت بھی عدالتوں میں پیش نہیں کر سکے اور رہی سازش اور غداری کے بیانیہ کی بات تو ایک کاغذ کے ٹکڑے کو ہوا میں لہرانے کے سوا آج تک انھوں نے کوئی ثبوت دکھانے کی زحمت اور ضرورت ہی محسوس نہیں کی ۔ جی ہاں ایک مرتبہ پھر کہتے ہیں کہ ضرورت ہی محسوس نہیں کی اس لئے کہ انھیں اپنے پروپیگنڈا کی طاقت اور عوام کی ذہنی کیفیت کا بخوبی اندازہ تھا ۔ انھوں نے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے دو چار مرتبہ مہنگائی کا ذکر ضرور کیا ورنہ تو انھوں نے چور اور غداری کے سوا کسی اور مسئلہ کا ذکر تک کرنا گوارہ نہیں کیا اور ہماری رائے میں مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ اسی میڈیا کے ہنر نے ان کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔
اس کے بر عکس نواز لیگ کی انتخابی مہم میں مریم نواز کی محنت میں کوئی شک نہیں لیکن انھوں نے جو انتخابی مہم چلائی وہ ایک روایتی انتخابی مہم کے
سوا اور کچھ نہیں تھی جبکہ اس بات کا اعتراف ہر کسی کو ہے کہ عمران خان خود بھی بیانیہ بنانے میں ماہر ہیں اور ان کے بیانیہ کے پیچھے جدید میڈیا کے ماہرین کا دماغ بھی ہوتا ہے تو ان کی انتخابی مہم کا مقابلہ کرنے کے لئے روایتی سیاسی اقدامات سے ہٹ کر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے اور یہ بات شاید ہمارے طرز کہن کے سیاسی مسافروں کے لئے ممکن نہیں ہو گی اور اس کے لئے انھیں میڈیا کو چلانے والی کسی جدید کمپنی کی خدمات حاصل کرنا پڑیں گی اگر ایسا نہ کیا گیا اور پندرہ بیس پچیس سال کے نوجوانوں کی سوشل میڈیا ٹیم بنا کر یہ سمجھنا کہ وہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہے اس لئے کہ ان نا پختہ ذہن کے نوجوانوں میں یقینا جوش بھی ہو گا اور خلوص بھی لیکن جدید دور کے تقاضوں کے بغیرصرف جوش اور خلوص سے کامیابی ممکن نہیں ہے ۔ ہم پہلے بھی اس بات کاذکر کر چکے ہیں کہ حکومت کو کس نے اس بات سے روک رکھا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے ان صفحات کی واضح تصویریں سامنے لاتی کہ جن پر پیٹرول کی قیمتوں کے حوالے سے شرائط درج تھیں اور جن پر تحریک انصاف کی حکومت کے کسی وزیر یا خود عمران خان کے دستخط تھے لیکن ایک کاغذ کے پلندے کو ہاتھ میں پکڑ کر کہا جاتا رہا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جو عمران خان نے آئی ایم ایف سے کیا ہے ۔ کسی کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تو نیٹ پر پڑا ہے یہ دفتر خارجہ میں پڑے ہوئے کسی سفیر کے مراسلہ کی طرح خفیہ دستاویز نہیں ہے ۔ دوسرا عمران خان اور فرح بی بی کی کرپشن کے متعلق کہا تو بہت کچھ گیا لیکن کیا کسی بندے کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ شہزاد اکبر کی طرح ہر روز پریس کانفرنس کر کے دستاویزات کے ساتھ بتاتا کہ یہ کرپشن ہوئی ہے اور یہ ہیں ان کے ثبوت ۔ ایسا کچھ نہیں کیا گیا اس کے برعکس کچھ غیر مصدقہ آڈیوز ضرور جاری کی گئیں کہ جن کا آج تک فرانزک ٹیسٹ بھی نہیں کرایا گیا تو اس طرح تو الٹا بیک فائر ہونے کے امکانات ہوتے ہیں لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو تو چھوڑیں کہ انھوں نے کبھی میڈیا کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں لیکن نواز لیگ کی عقل کیا گھاس چرنے چلی گئی ہے کہ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ کرنا کیا ہے ۔ باقی باتوں کو تو چھوڑیں فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ایک مہینہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا محفوظ کیا ہوا ہے لیکن اسے نامعلوم وجوہات کی بنا پر سنایا نہیں جا رہا اور حکومتی اتحاد الیکشن کمیشن پر جائز دبائو ڈالنے میںبھی ناکام رہا اور یہ فیصلہ اب تک انجانی مصلحتوں کے سبب محفوظ ہی ہے ۔
اب یہی دیکھ لیں کہ جیسے ہی ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو اس شدت کے ساتھ اس بیانیہ کی گونج میڈیا میں سنائی دینے لگی کہ عوامی رائے نے عمران خان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ نواز لیگ کو یہ بات کہنے میں کچھ تحفظات ہوں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کو تو اسی شدت کے ساتھ اس کا جواب دینا چاہئے تھا کہ چند دن پہلے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے فیز ون میں جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے کلین سویپ کیا اور پورے اندرون سندھ سے تحریک انصاف چند سیٹوں سے زیادہ نہیں لے سکی تو کیا وہ عوامی رائے نہیں تھی اور کیا جنھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دیئے وہ پاکستان کے شہری نہیں تھے یا ان کا شمار انسانوں کی بجائے بھیڑ بکریوں میں ہوتا ہے ۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومتی اتحاد کے نہ صرف یہ کہ ہاتھ بندھے ہوئے ہیں بلکہ ان کی زباں بندی کا بھی پورا پورا بندوبست کیا ہوا ہے غنیمت ہے کہ سعد رفیق نے کچھ ہمت پکڑی اور کچھ کھل کر کہنے کا حوصلہ کیا ۔ اس کے علاوہ اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں یہ طے پایا کہ وفاقی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی لیکن یہ بیان الیکشن نتائج کے فوری بعد آنا چاہئے تھا دو دن تک ملک میں جس درجہ بے یقینی کا راج رہا اس سے ڈالر تاریخ کی ایک بڑی اڑان کے بعد 225پر پہنچ چکا ہے لیکن اس میں بھی غور کرنے والی بات یہ ہے کہ دو دن میں مان لیا کہ بے یقینی کی کیفیت تھی لیکن ایک دم دس روپے بڑھ جانا یہ معمول کی بات نہیں ہے لہٰذا اس بات پر حکومت کو اب سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ وہ کون سی قوتیں ہیں کہ جو موجودہ حکومت کو ناکام کرنے کے لئے ملکی معیشت کو بھی دائو پر لگانے سے گریز نہیں کر رہیں اور اگر حکومت یہ کام بھی نہیں کر سکتی اور عمران خان سمیت تحریک انصاف کی قیادت کے کرتوت بھی ثبوتوں کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہے، اگر صرف مشکل فیصلے ہی کرنے ہیں اور کوئی جوابی بیانیہ نہیں بنانا تو پھر دیوار پر لکھا حکومت کا انجام ضمنی انتخابات کے نتائج سے مختلف نہیں ہو گا ۔