راولپنڈی: جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ مجھے نومبر تک نہیں ستمبر میں چیف جسٹس بنوانے کی بھی پیش کش کی گئی لیکن مجھے نوکری کی پرواہ نہیں ہے کیوں کہ جج نوکری سے نہیں بلکہ انصاف، عدل اور دلیری کا مظاہرہ کرنے سے بنتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق راولپنڈی بار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ بار میں آکر خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کی عرصے سے خواہش تھی کیوں کہ میرا احتساب میری بار ہی کر سکتی ہے اور میرے اوپر آج تک کوئی کرپشن کا ایک الزام ثابت نہیں کر سکتا۔
یہ بھی پڑھیں:تاندلیانوالہ میں آزاد امیدوار نے خود کشی کر لی، الیکشن ملتوی ہونے کا امکان
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا موازنہ امریکا یا یورپ کے ساتھ نہیں، بھارت، بنگلہ دیش یا سری لنکا کے ساتھ ہو سکتا ہے،2030 میں بھارت دنیا کی ایک بڑی معیشت ہو گا اور ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں،بھارت میں ایک دن کے لیے سیاسی عمل نہیں رکا، کبھی مارشل لا نہیں لگابھارت کے دشمن ملک ہونے کا بتایا جاتا ہے، یہ نہیں کہ ان کے لوگوں کو آرمی چیف کا نام معلوم نہیں ہوتا،بھارت میں بھی کرپشن اور بدانتظامی ہے مگر پھر بھی ترقی کی راہ پر ہے،موجودہ ملکی حالات کی پچاس فیصد ذمہ داری عدلیہ اور باقی پچاس فیصد دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ ملکی حالات کی 50 فیصد ذمہ داری عدلیہ اور باقی 50 فیصد دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے۔جسٹس صدیقی کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی اہم فیصلہ دیتا ہوں ایک مخصوص گروہ کی جانب سے مہم چلادی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ وہی جج صاحب ہیں جن کے خلاف کرپشن ریفرنس زیرسماعت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میرا دامن صاف ہے اس لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو درخواست دی کہ اوپن ٹرائل کریں لہٰذا تمام وکلاء کو دعوت دیتا ہوں کہ آکر دیکھیں مجھ پر کرپشن کے الزام میں کتنی صداقت ہے؟ اگر کرپشن نظر آئے تو بار مجھ سے استعفی کا مطالبہ کرے تو میں مستعفیٰ ہوجاؤں گا۔
یہ بھی پڑھیں:عام انتخابات، الیکشن کمیشن نے ووٹنگ کا طریقہ کار وضع کر دیا
ان کا کہنا تھا کہ کہا گیا یقین دہانی کرائیں کہ مرضی کے فیصلے کریں گے تو آپ کے ریفرنس ختم کرادیں گے اور مجھے نومبر تک نہیں ستمبر میں چیف جسٹس بنوانے کی بھی پیش کش کی گئی لیکن مجھے نوکری کی پرواہ نہیں ہے کیوں کہ جج نوکری سے نہیں بلکہ انصاف، عدل اور دلیری کا مظاہرہ کرنے سے بنتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ موجودہ ملکی حالات کی 50 فیصد ذمہ داری عدلیہ اور باقی 50 فیصد دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے۔جسٹس شوکت عزیز کا کہنا تھاکہ ابھی تک قانون کے طلبا کو نہیں معلوم کہ جسٹس منیر نے کیا کردار ادا کیا تھا؟ جسٹس منیر کا کردار ہر کچھ عرصے بعد سامنے آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:میں مجبوری کے تحت الیکشن کے وقت بیرون ملک جا رہا ہوں، ڈاکٹر عاصم
ان کا کہنا تھا کہ وکلاءجرائم میں کمی کا سبب بنیں، سہولت کار نہ بنیں کیوں کہ ترقی کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پاکستان کا موازنہ امریکا یا یورپ کے ساتھ نہیں ہوسکتا بلکہ بھارت، بنگلہ دیش یا سری لنکا کے ساتھ ہوسکتا ہے۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں