خودی، توکل، ارادہ، عزم اور یقین لاجواب صفات ہیں جو کسی کسی کا مقدر بنتی ہیں اور جب یہ صفات انسان کے نصیب میں آ جائیں تو پھر وہ علامہ اقبالؒ کے شعر کی عملی تعبیر بن جاتا ہےِ:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
سرکاری نوکری ایسا طوق ہے جو گلے میں ڈالنے کے لیے انسان سفارشیں ڈھونڈتا پھرتا، چاکری اور خوشامد میں غرق رہتا ہے۔ رشوت دیتا اور اپنی انا بھی بازار کی جنس بنا دیتا ہے، بات یہیں ختم نہیں ہوتی نوکری مل جانے کے بعد خوشامد کی جس دلدل میں اترتا ہے ہر قدم پہلے سے زیادہ اس کو دلدل کے اندر اتارے چلا جاتا ہے۔ اتنی خوشامد، اتنا خوف، اتنی چاکری کہ اگر اس کا 0.1 فیصد بھی اللہ کریم سے رجوع کرے تو ولیوں میں نام ہو۔ ٹرانسفر، پوسٹنگ، ترقی، تعلقات، شکریہ، نبھاتے نبھاتے جب آنکھ کھلتی ہے تو ریٹائرمنٹ کے سمے چل رہے ہوتے ہیں۔ انسان کا اپنا پن نہ جانے کہاں کھو جاتا ہے، شاید انسان کی اپنے ساتھ بھی ملاقات ہی نہیں ہو پاتی۔ بس ایک ایسا گھن چکر ہوتا ہے کہ بڑے بڑے اس میں ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ ہمارے کولیگز میں سے ایک آفیسر جن کی ابھی نوکری کی مدت 18 سال باقی رہتی تھی، تھوڑی چھٹی گزار کر آئے تو انہیں علم ہوا کہ ان سے جونیئرز کو ترقی دے دی گئی۔ جونیئرز میں اس شخص کی ترقی کے لیے باقی کو بھی ترقی دے دی گئی جو ہر قسم کی سپلائی کے لیے مشہور تھا۔ ایسا سپلائر کہ آج بھی لوگ اس کے نام کو بطور استعارہ استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے اس کولیگ کی حمیت اور غیرت کو گوارا نہ ہوا، اس نے فوری طور پر نوکری کو خیرباد کہہ دیا۔ اس وقت ان کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ ایک مہینہ گزار سکتے۔ میاں نواز انجم کسٹم آفیسر کو سب دوستوں نے سمجھایا مگر وہ بنیادی طور پر توکل والے اور نیک سیرت انسان ہیں، انہوں نے ارادہ کیا تو پھر اللہ نے اس پر قائم رکھا۔ لوگ جوں جوں انہیں سمجھاتے نوکری میں واپس آنا تو درکنار ان کو نوکری سے باقائدہ نفرت ہو گئی۔ انہوں نے نوکری چھوڑ کر کنسٹرکشن کا کام شروع کیا، بنگلے بنانا اور بیچنا شروع کیے، صوم الصلوٰۃ کے پابند، نیک سیرت انسان نے محنت کی مگر بیوی بچوں اور والدین کو بھی بھرپور وقت دیا۔ آج میاں نواز انجم سماجی، معاشی، اخلاقی اور معاشرت میں ایسے معیار و مقام پر کھڑے ہیں کہ شاید نوکری میں کرپشن، ریا کاری، خوشامد، بدکاری کرنے والوں کو وہ مقام اور اطمینان نصیب نہ ہو جو میاں نواز انجم کو ہے۔ پچھلے اتوار میاں صاحب میری طرف تشریف لائے اور مجھے انہوں نے کہا چلیں آپ کو چائے پلانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ میرے گھر پہ آئے ہیں ادھر ہی کچھ کھا پی لیتے ہیں، گپ لگاتے ہیں۔ میاں صاحب نے ایک گلاس پانی اور تھوڑی سی چائے کے بعد مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر رایا فیز 7/6 ڈی ایچ اے لے گئے جو 3600 کنال پر محیط ہے۔ جس کے 3000 کے قریب ممبر ہیں، رایا میں داخل ہوتے ہی مجھے احساس ہوا کہ میں خوبصورت پاکستان میں داخل ہو گیا ہوں یا پاکستان اتنا خوبصورت ہے۔ میرا دل خوشی سے بھر گیا یہ وطن عزیز کی سب سے بڑی گالف گراؤنڈ یا کلب ہے۔ جس میں سردی گرمی، عورتوں مردوں کے الگ الگ سوئمنگ پول ہیں، جمز ہیں، سیلون ہیں۔ رایا میں آئندہ یا زیر تعمیر منصوبوں میں 5 ستارہ ہوٹل، 32/32 منزلہ رہائشی و کمرشل عمارتیں، جھیل اور گالف کلب جس کے 18 ہول ہیں۔ اردگرد لاجواب کمرشل زون اور پھر 10 مرلہ سے دو کنال کے بنگلے Raya کے نام سے جو بین الاقوامی کمپنی Raya اور ڈی ایچ اے کا مشترکہ شاہکار ہے۔ اس کو دیکھنے اس میں گھومنے سے میڈیا پر آنے والی پاکستان کی تصویر نظروں سے اوجھل تو ہو جاتی ہے مگر حقیقت لاشعور میں رہتی ہے۔ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک میں بھی ٹوٹی سڑکوں اور گندی گلیوں کا مل جانا عام بات ہے مگر وہاں کے طاقت ور نظام نے انسانوں کو سنبھال رکھا ہے۔ میں Discover Pakistan کے سینئر ڈائریکٹر امیر حمزہ آصف سے کہوں گا کہ ہوٹل فار یو Hotel For You اور وطن عزیز کے دور دراز کے علاقوں کی قدرتی خوبصورتی پر فلمبندی کرنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے اس شاہکار پر بھی پروگرام کرے جو یقینا خوبصورت پاکستان کا خوبصورت تعارف ہو گا، اللہ کرے کہ ایسے منصوبے اور ایسے علاقے وطن عزیز میں جا بجا پائے جائیں۔ جیسے مین ہٹن امریکہ، ساؤتھ لندن دریائے ٹیمز کے کنارے ساحل سمندر شہری بستیاں کاروباری مراکز آباد ہوں۔ وطن عزیز کی دو تصویریں ہیں ایک عمران نیازی پیش کرتے ہیں کہ ککھ نئیں ریا اور دوسری بلاول بھٹو کہ وطن عزیز ایک عظم ملک بنے گا۔
دراصل Change of Profession یعنی ابتدائی کاروبار یا کام کا تبدیل کرنا ہمارے ہاں مغرب اور امریکہ کی نسبت بہت کم ہے۔ انسان دلی اور ذہنی طور پر اسی شعبہ میں بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے جس کے حوالے سے اس میں پیدائشی اور فطری طور پر دلچسپی پائی جاتی ہو۔ جیسے امریکی صدر ریگن مذہب کی طرف آ گئے تھے۔ میرے متعدد دوست سرکاری نوکری چھوڑ کر اپنے کام جیسا کہ وکالت یا کاروبار وغیرہ کر رہے ہیں۔ ویسے بھی فرمان ہے کہ رزق 20 فیصد ملازمت جبکہ 80 فیصد اپنے کاروبار میں ہے (مفہوم)۔ ہمارے ہاں اگر کام تبدیل بھی کرنا ہو تو ڈاکٹر جو کہ ایک افسانوی کردار ہے سے ہجرت کی جائے گی تو سی ایس پی آفیسر بن جانا زیادہ عزت و توقیر انسانیت کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ماتحتوں سے سلیوٹ کرانے اور اعلیٰ افسران کی خوشامد کا لا متناہی سلسلہ ہے۔ غلام محمد گورنر جنرل اگر قوم کو بیوروکریسی کا غلام نہ بناتا، اگر شہاب نامہ اور رستم خان کیانی کے افکار پریشاں کا فکری موازنہ کیا جاتا، شہاب نامہ اسلامی ٹچ کے پیچھے پناہ گزین نہ ہوتا اور رستم خان کیانی (جسٹس ریٹائرڈ) مارشل لا کے ضابطوں کے پیچھے نہ چھپایا جاتا تو آج قوم کی فکری حالت مختلف ہوتی۔ اگر سوشلزم کا مذہب سے موازنہ بلکہ مقابلہ کرا کر مذہب (اسلام) مخالف نظریے کے طور پر نہ سمجھا جاتا تو آج ہماری معاشی پالیسی میں استحکام ہوتا۔ کردار تو کردار ہم نے افکار کو بھی بہروپیا بنا دیا۔ کیپٹلزم ہی سہی مگر اس میں نو آبادیاتی نظام فرنگی کا کروفر کہاں سے آ گیا۔ آج ڈاکٹر بیوروکریسی، بیوروکریٹ سیاسی دھڑوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ کوئی بتائے گا کہ یہ نظام معاشرت و سیاست اور سماج ہے۔ ایک ڈاکٹر گلی میں کلینک کھول لے تو سرکاری نوکری سے زیادہ کما سکتا ہے اور خدمت خلق بھی لیکن سرکاری گاڑی، نوکر، کروفر، جی حضوری کرنے کرانے کے مواقع تو نہیں ہو سکتے۔
میرے سابقہ کالم ”فیس بک، ٹوئٹر، سٹین گن اور جوایا پہلوان“ کے حوالے سے میرے دوست میاں اشفاق (روزنامہ نئی بات) نے مشورہ دیا تھا کہ وطن عزیز کی تاریخ میں پائی جانے والی خاندانی دشمنیوں کے حوالے سے ایک کتاب تحریر کریں کیونکہ آپ متعدد ہی نہیں بلکہ اکثریتی واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ اس طرح سے آپ کی تحریر مستند ہو گی، اور نئی نسل کو اس سلسلہ میں آگاہی میسر آئے گی۔ میں نے اس مشورہ پر غور کیا اور کافی سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ کتاب لکھنے کے بجائے اپنے کالموں میں اس حوالے سے بات کرتا رہوں گا تاکہ قارئین تک یہ حقائق پہنچ سکیں۔