میں لاہور کی معروف سرکلر روڈ پرتاریخی لوہاری مسجد کے سامنے انارکلی کی پان والی گلی میں عین اس جگہ پرموجود تھا جہاں بم دھماکہ ہوا ہے۔شروع میں انتظامیہ نے یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ یہ سلنڈر دھماکہ ہے مگر تھوڑی ہی دیر میں عینی شاہدین نے کنفرم کر دیا کہ ایک موٹرسائیکل سوار آیا، اس نے جلدی میں موٹرسائیکل پارک کی اور وہاں سے بھاگا، اس کے بھاگتے ہی موٹرسائیکل پر نصب کیا گیا بارودی مواد پھٹ گیا۔ اس سے پہلے جب جوہرٹاون میں دھماکہ ہوا تھا تو کہا گیا تھا کہ یہ ٹارگٹڈ تھا اوراس کا نشانہ جماعۃ الدعوۃ کے نظربند سربراہ پروفیسر حافظ محمد سعید تھے۔ اس موقعے پر بھی دہشت گرد بارودی مواد سے بھری ہوئی گاڑی ان کے گھر سے جڑی دوسری گلی تک لانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ ان دونوں واقعات سے ایک بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر ملک دشمن عناصرلاہور جیسے شہر میں بھی بارودی مواد کو لانا اورکسی جگہ پہنچا کر پھاڑنا چاہتے ہیں تواس کے لئے ان کے راستے میں اربوں روپوں کے بجٹ لینے والی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں سمیت کوئی رکاوٹ نہیں ہے، یہ ایک خوفناک بات ہے۔
حماد اسلم، بہت محنتی اور شاندار سمجھ بوجھ کے حامل صحافی ہیں، لاہور کی کرائم رپورٹنگ میں انہوں نے اور سلمان قریشی نے نئے معیار متعارف کروائے ہیں۔ وہ ہمارے مقبول پروگرام’ تھانیدار‘ کے میزبان بھی ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ جوہر ٹاون والے دھماکے کے بعد اطلاعات تھیں کہ دہشت گردی ہوگی مگر اس میں وہ گروپ ملوث نہیں جس کے بارے شبہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ میں ان کی انفارمیشن سن کر پریشان ہو گیا اور سوال کیا کہ کیا اس وقت ایک سے زیادہ گروہ متحرک ہیں جو آگ اور خون کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں تو ان کا جواب اثبات میں تھا ، یہ دوسری خوفناک بات ہے۔وہ بتا رہے تھے کہ سیکورٹی تھریٹ موجود تھا مگر میری رائے ان سیکورٹی تھریٹس کے بارے انتہائی منفی ہے۔ یہ تھریٹ لیٹرزمحض بھرتی کی کارروائی ہوتے ہیں کہ ایک دہشت گرد گروپ سکولوں، کالجوں، بازاروں وغیرہ وغیرہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا چاہتا ہے لہذا سیکورٹی سخت کر دی جائے۔ ایسے تما م لیٹرز میں بہت ہی عمومی اورمبہم اطلاع ہوتی ہے جس پر کسی بھی جگہ کی پولیس کے لئے سیکورٹی یقینی بنانا ممکن ہی نہیں ہوتا۔یوں بھی سانحہ ساہیوال کے بعد بطور ایک پروفیشنل جرنلسٹ میرے لئے انسداد دہشت گردی کے ادارے کی اطلاعات پر یقین کرنا مشکل ہے۔ جو ادارے بچوں کے ساتھ جانے والے ایک عام سے خاندان کو گولیوں سے بھون دیں ، ان کی انفارمیشن پر یقین کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ میڈیا کی مجبوری یہ ہے کہ اس نے قومی مفاد میں پولیس وغیرہ کی ایسی پریس ریلیزوں پر ہی اعتماد کرنا ہوتاہے چہ جائیکہ کوئی ویڈیو یا کوئی دوسری شہادت دستیاب نہ ہوجائے۔
اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم سابق دور حکومت میں دہشت گردی کی خوفناک ترین لہر کو کچل چکے تھے جس نے مشرف دور میں جنم لیا اور پیپلزپارٹی کے دور میں اپنے عروج پر پہنچی۔ مجھے جب کوئی یہ پوچھتا ہے کہ نواز شریف کی حمایت کیوں کی جائے تو میرا ایک پاکستانی کے طورپر یہی جواب ہوتا ہے کہ اس شخص کی وزارت عظمیٰ میں ہماری حکومت اور اداروں نے دہشت گردی کی اس لہر کو ہی ختم نہیں کیا جو ہمارے وطن کو ہی ختم کرنے جا رہی تھی بلکہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ بھی ہوا حالانکہ لوڈ شیڈنگ آج سے آٹھ، نو برس پہلے بارہ، بارہ اور سولہ ، سولہ ، گھنٹوں تک پہنچ گئی تھی۔ آج حکومت کا مسئلہ لوڈ شیڈنگ نہیں بلکہ یہ ہے کہ بجلی استعمال کہاں کی جائے ۔ میں نواز شریف کو سی پیک، موٹرویز اور ائیروپورٹس جیسے شاندار انفراسٹرکچر کا بھی کریڈٹ دیتا ہوں اور موجود ہ حکومت میں مہنگائی کی لہر کو بے قابو دیکھ کر کہتا ہوں کہ ڈالر اور انفلیشن کو قابو رکھنا بھی ایک کارنامہ ہی تھا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ جب میں انار کلی کے تاجروں کے ساتھ مکالمہ کر رہا تھا تو وہ سب حکومت کی سخت سرزنش کر رہے تھے ۔ انجمن تاجران پاکستان کے اپنے دھڑے کے صدر اشرف بھٹی اور جنرل سیکرٹری انار کلی بازار خواجہ ندیم وغیرہ کے بارے میں مجھے علم ہے کہ وہ شروع ہی سے پرو نواز شریف ہیں مگر ان کی مارکیٹ کے بالکل سامنے تاجر رہنما نعیم خان میرے پروگراموں میں خود کو فخر کے ساتھ کپتان کا کھلاڑی بتایا کرتے تھے اور شریفوں کے سخت لتے لیا کرتے تھے مگر گذشتہ روز عجیب بات ہوئی جب انہوں نے خود کو نواز شریف کا سپاہی قرار دے دیا۔ میرے حیرت ظاہر کرنے پر انہوں نے مسکرا کر معاملہ گول کرنے کی کوشش کی مگر پھر ملکی اقتصادی حالت پر برس پڑے، لوگ پریشان ہیںکہ مہنگائی بھی بے قابو ہو رہی ہے اور دہشت گردی بھی واپس آ رہی ہے۔
میں انارکلی کے تاجروں سے جزوی طور پر اتفاق کرتا ہوں کہ اس بم دھماکے کی وجہ وہاں پر موجود تجاوزات بھی ہیں۔ میں نے دھماکے اور دکانیں بند ہونے کے بعد انارکلی کی سڑک کو دیکھا تو وہ اتنی کشادہ تھی کہ آپ وہاں دو ٹرک ایک ساتھ بھگا سکتے ہیں مگر وہاں سٹالز اور سٹینڈز نے معاملہ خراب کر رکھا ہے۔ ہزاروں موٹرسائیکلیں وہاں پارک ہوتی ہیں جس کے بعد وہاں گزرنے کی جگہ بھی نہیں رہتی۔ تاجر رہنما کہہ رہے تھے کہ داتا گنج بخش ٹاون کا عملہ رشوت لے کر تجاوزات کی سرپرستی کرتا ہے مگر کچھ تاجر نشاندہی کر رہے تھے کہ خود ان کے ساتھی بھی اس میں ملوث ہیں۔ تاجروں کی یہ بات درست ہے کہ اگر کوئی پارکنگ پلاز ہ ہوتا تو موٹرسائیکل وہاں پارک کی جاتی مگر میں اس سے بڑھ کر کہتا ہوں کہ ہماری حکومت اور اداروں کو دہشت گردی کے درخت کی جڑ ختم کرنا ہوگی ، دوسرے تمام اس کی شاخیں کترنے کے برابر ہیں۔ ہمیں وہاں پہنچ کر ان شیطانوں کو کچلنا ہو گا جوبارود خریدنے اور پہنچانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
کالم کے آخر میں مجھے اپنے محترم وزیراعلیٰ سے ’سانحہ مری‘ کے حوالے سے تین سوال پوچھنے ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ کیا آپ بائیس سے زائد افراد کی موت کے ذمے دار راولپنڈی ڈویژن کے افسران کی معطلی کو کسی قسم کی سزا سمجھتے ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا ہے کہ یہ درست نہیں۔ معطل افسران صرف کام سے نجات حاصل کرتے ہیں ورنہ رولز اینڈ ریگولیشنز اور عدالتی فیصلوں کے مطابق وہ اپنی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ معطل ہونے والے افسران کاسہ لیسی کے ذریعے کئی کئی بار اہم ترین پوسٹس دوبارہ حاصل کرتے ہیں اور کئی تو اس میں چند ماہ بھی نہیں لگاتے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ تمام سزا بیوروکریسی کو دی گئی مگر ان کے کچھ ’پولیٹیکل باسز ‘بھی ہوں گے جن پر ان سے بھی زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ کسی انڈر پاس کے بنانے کا کریڈٹ لیتے ہیں جبکہ وہ بنایا کسی سرکاری ادارے کی سرپرستی میں کسی کنٹریکٹر اور مزدوروں نے ہوتا ہے تو اسی طرح سیاسی لوگوں کو ان افسروں کے ناقص کام کا ڈس کریڈٹ بھی لینا ہوگا۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ مری میں آٹھ ہزار سے زائد گاڑیوں کے داخلے پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر ایک خاندان جو بہاولپور، ملتان یا لاہور وغیرہ سے مری کے لئے روانہ ہوتا ہے او روہاں آپ کے اہلکار اسے مری میں داخل ہونے سے اس لئے روک دیتے ہیں کہ آٹھ ہزار گاڑیاں پوری ہوچکیں تو وہ رات کہاں گزارے گا اور جب اس کے ساتھ کوئی واردات ہوگی تو پھر آپ اس احمقانہ پابندی کاکچھ متبادل سوچیں گے؟