سانحہ مری کو ایک الگ واقعہ کے طور دیکھنا مناسب نہیں ۔ پورے ملک میں خصوصاً پچھلے ساڑھے تین سال سے جو تماشا چل رہا ہے یہ المیہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ اس سے بھی کہیں زیادہ شرمناک یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی محکمے نے برفباری میں پھنسے اپنے ہی شہریوں کی جان بچانے کیلئے سرے سے کوئی کوشش ہی نہیں ۔ اور جب میڈیا کے ذریعے اموات و تفصیلات پوری دنیا کے سامنے آگئیں تو کریڈٹ لینے والوں نے ایک دوسرے کے سر پر پاؤں رکھ کر اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کی ۔بظاہر اسی کے زیادہ نمبر بنے جو زیادہ طاقتور ہے ۔ بہت زیادہ تبصروں کی ضرورت ہی نہیں ۔ جب کبھی بھی مری میں داخل ہونے لگیں تو فوراًپتہ چل جاتا ہے کہ اس چھوٹے سے تفریحی مقام میں انتظامیہ کے اہلکار تو بڑی تعداد میں موجود ہی ہوتے ہیں مگر اس سے بھی کہیں بڑی تعداد میں دوسرے محکموں کے ہزاروں ملازمین اور ان کے بڑے بڑے دفاتر موجود ہیں ۔ جن کے پاس فوری اطلاعات کا اپنا نظام اور کسی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہر طرح کے آلات اور وسائل وافر تعداد میں موجود ہیں ۔ صرف مری کیا پورے گلیات میں بھی گاڑیاں ایسی ہی برف باری میں پھنس جاتیں تو بروقت امدادی سرگرمیاں شروع کرکے حالات کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ اور ایک بھی جان ضائع نہ ہوتی مگر افسوس سب سوتے رہے ۔ اور پھر اگلے روز وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید جائے وقوعہ سے دور محفوظ فاصلے پر کھڑے ہوکر ویڈیو بنواتے رہے اور ایک ٹرک کو گزرنے کا اشارہ دیتے ہوئے اپنی جانب سے ٹریفک کو رواں دواں کرنے کا کارنامہ سرانجام دے رہے تھے ۔ وزیر داخلہ نے بعد میں ایک بیان میں ارشاد فرمایا کہ وہ موقع پر نہ جاتے تو 23 کی جگہ 30 یا 40 ہلاکتیں ہو جانا تھیں۔وزیر داخلہ کی حرکتیں اور بیانات تو محض ایک مثال ہیں ۔ سانحہ مری کے بعد حکمران اشرافیہ نے جس طرح زبانی جمع خرچ سے ’’ پھرتیاں ‘‘ دکھائیں اس سے ایک بار پھر یہ ظاہر ہوگیا کہ ہم پر مسلط ٹولہ کس قدر سفاک ہے ۔ انسانی جانوں کی ان کے نزدیک ذرہ برابر اہمیت نہیں ۔ اچھا خاصا چلتا ہوا سسٹم اکھاڑ کر وہ نظام مسلط کیا گیا کہ بیڈ گورننس کا عالم یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے کراچی میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر دیکھ کر دل کو تسلی دیا کرتے تھے کہ چلو تبدیلی آنے کے بعد لاہور میں کوئی بڑا پراجیکٹ نہیں بنا مگر اتنا تو ہے کہ کراچی جیسی گندگی نہیں ۔ آج عالم یہ ہے کہ لاہور میں جس طرف جائیں کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ۔ بیورو کریسی کے ہرکارے اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کچھ اور نہ بن پڑے تو شہر کی اہم شاہراہوں سے ہی کوڑے کے کنٹینر ہٹا دیں ۔اس صورتحال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر بڑی سڑکوں کا یہ حال ہے تو گلی محلوں میں صورتحال کیا ہوگی ؟ پچھلی حکومتوں میں تو لوگ مختلف محکموں کی اچھی یا بری کارکردگی کے بارے میں رائے دیتے تھے آج جس طرف بھی جائیں اور کوئی کام پڑ جائے تو لگتا ہے کہ سرکاری دفاتر پر صرف تختیاں لگی ہیں اور اندر موجود عملہ بس حاضری لگوانے لئے آیا ہے تاکہ تنخواہ کی وصولی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے ۔ ایسا ہونے کی کئی وجوہات ہیں مگر بنیادی وجہ انتظامی نااہلی ہے ۔ جس پارٹی کیلئے ایک ایک بندے کو چن چن کر اکٹھا کیا گیا اور ایک پیج کی کرامت سے سب کچھ بلڈوز کرکے ان کی حکومت بنائی گئی وہ بائیس کروڑ عوام کے لئے خود سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے ۔ ستم تو یہ ہے کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کوئی ادارہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ کبھی کبھار اپوزیشن جماعتوں کو جوش آتا ہے تو ایک امید بندھنے لگتی ہے کہ شاید وطن عزیز کی سمت درست ہونے جارہی ہے ۔ پھر دیکھتے ہیں جے یو آئی ف اوربعض دیگر جماعتیں تو سلیکٹڈ حکومت کی گول پوسٹ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں مگر انہی کی صفوں میں شامل مسلم لیگ ن کی کوشش ہوتی ہے کہ گیند ہر
صورت اپنے ہاف میں ہی رہے ۔ صوبہ سندھ میں حکومت کرتے ہوئے اپوزیشن کرنے والی پیپلز پارٹی سے تو یہی کھٹکا لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کب گیند اپنی ہی ( اپوزیشن کی ) گول پوسٹ میں پھینک دے ۔گردن توڑ دبائو کا شکار میڈیا بھی کبھی کبھی ایسی صدا بلند کردیتا ہے کہ جیسے حالات کا رخ مڑنے والا ہو۔ وکلا تنظیمیں زیادہ جرأت دکھاتی ہیں آجکل زیادہ تر ’’ رونق ‘‘ انہی کے سبب ہے۔ سول سوسائٹی بھی اس حوالے سے واضح سوچ رکھتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے بعض جج صاحبان بھی کسی دھونس کو خاطر میں لائے بغیر فیصلے دیتے نظر آتے ہیں ۔ جبری گمشدہ افراد کے مقدمات ہوں یا نیول سیلنگ کلب یا نیول فارمز کے غیر قانونی ہونے کا معاملہ ، مسلح افواج کی طرف سے کاروباری سرگرمیوں پر قدغن کے معاملات کراچی میں غیر قانونی شادی ہال اور پٹرول پمپ گرانے کا معاملہ ، فضائیہ کی طرف سے کمرشل پلازہ بنانے جیسے اقدامات کی سرزنش ، یقیناً یہ سو فیصد منصفانہ فیصلے ہیں مگر ان پر عمل درآمد کرانا بہت بڑا چیلنج ہے ۔ بہر حال اس حد تک اطمینان تو ہوتا ہے کہ طاقتور حکمران اشرافیہ کے سامنے تمام ادارے پوری طرح سرنگوں نہیں ۔ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا ، کم ازکم یہ بات تو نوٹ کی جانی چاہئے کہ اگرچہ خطرات پہلے جیسے ہی ہیں مگر معاشرے سے خوف کم ہوگیا ہے یا یوں کہہ لیں دھیمی رفتار سے ہی سہی مگر لوگ ڈرنا چھوڑ رہے ہیں۔ یہ بے حد مثبت علامت ہے خصوصاً ایسے معاشرے میں جہاں ہمیں ایسے لیڈر ہی میسر نہ ہوں جو جرأت مندی کے ساتھ آگے بڑھ قابض قوتوں کو چیلنج کرسکیں اور میدان عمل میں آکر قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکیں ۔ ایک طرف عوام ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے مسائل کے دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں دوسری طرف کٹھ پتلی حکومت کو صرف ترجمانوں کی فوج کے ذریعے چلانے کی منظم کوشش کی جارہی ہے۔ اپنے سرپرستوں کی بھرپور مدد سے دن رات احمقانہ اور مضحکہ خیز دعوے کئے جاتے اور اپوزیشن کی مختلف جماعتوں پر اوٹ پٹانگ الزامات لگائے جاتے ہیں ۔ ’’طاقتور ٹولے ‘‘ کے محاصرے میں آیا ہوا میڈیا سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود اس پراپیگنڈہ کے پھیلاؤ میں اپنا حصہ ڈالنے پر مجبور ہے ۔ ترجمانوں ، یو ٹیوبرز اور سوشل میڈیا کے ’’ مجاہدین ‘‘ کے اس لشکر جرار پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں ۔ یہ رقم کوئی پارٹی یا ادارہ اپنے کھاتوں میں سے نہیں دے رہا بلکہ ہمارے اور آپ کے ٹیکسوں کے پیسے اور بیرون ملک سے منتیں کرکے لئے جانے والے قرضوں کی رقوم کو بے دردری سے لٹایا جارہا ہے۔ اتنی بڑی مشق کے باوجود سچ سامنے آنے سے نہیں رک رہا ۔ ابھی چند دن پہلے ہی ایک غیرملکی ویب سائٹ پر دو پاکستانی صحافیوں کے کالم رکوائے گئے ہیں ۔حالانکہ ان تحریروں میں بہت مہذب انداز میں مناسب بات کی جاتی تھی ۔ اس حرکت سے واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ عوام تک سچی خبروں کی رسائی روکنے کے لئے تمام دائو پیچ پٹ چکے پھر بھی حقیقت حالات کو دبانے کیلئے پورا زور لگایا جارہا ہے ۔ ہمیں مثبت خبروں کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے والے ملک اور اپنے بچوں کے حوالے کیا سوچ رکھتے ہیں ۔ اس کی ایک جھلک وفاقی وزیر انسداد منشیات بریگیڈیئر( ر) اعجاز شاہ کی وہ کھلی ڈلی گفتگو ہے جو انہوں نے اسلام آباد کی ایک ایسی محفل میں کی جہاں مسلم لیگ ن کے ایک ایم این اے بھی موجود تھے ۔ اعجاز شاہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے کہہ دیا ہے کہ وہ آبائی زمینیں بیچ کر امریکا میں مستقل سکونت اختیار کرلے کیونکہ پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں ۔ اندازہ لگائیں کہ جو شخص فوج کے اعلیٰ عہدوں پر رہ چکا ، آئی ایس آئی کا سیکٹر کمانڈر اور آئی بی کا سربراہ رہاہو مقتدر عہدیدار کے کہنے پر وفاقی وزیر داخلہ بنا اور اب بھی وزیر ہے وہ اپنے خاندان کے مستقبل کے حوالے وہی سوچ رکھتا ہے جس کا عملی مظاہرہ انہی کے پیٹی بھائی جنرل (ر) عاصم باجوہ کرکے دکھا چکے ہیں ۔ اس قسم کے خاندان تو پاکستان میں رہ کر بھی ہر طرح کی آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ، کبھی وسائل کم پڑتے ہیں نہ ہی ان کے اختیارات میں کمی آتی ہے ۔ ہر قسم کے احتساب سے بھی آزاد ہوتے ہیں ۔ اگر ان کا اپنا یہ حال ہے تو پھر باقی 22 کروڑ عوام کا کیا قصور ہے کہ وہ بدامنی ، مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ ظلم کی چکی میں پستے رہیں ۔ اور وقفے وقفے سے طرح طرح کے ڈاکٹرائنوں اور نظریہ ضرورت کے نام پر کئے جانے والے تجربات کی بھینٹ چڑھتے رہیں ۔ یہ تو طے ہے کہ حکمران اشرافیہ حالات کو جوں کا توں رکھنے پر تلی ہوئی ہے ۔ عوام کے مسائل اسکا سردرد نہ پہلے کبھی تھا نہ ہی آئندہ کبھی ہوگا ۔لوگوں کو درپیش مشکلات کا ذکر صرف اس لئے کیا جاتا ہے کہ ان کا تمام تر ملبہ کسی اور کے سر ڈالا جاسکے ۔ سانحہ مری بھی سانحہ ساہیوال کی طرح فراموش کردیا جائے گا ۔ لوگ پوچھتے رہیں گے اس کا حل کب نکلے گا ؟ اس بارے میں رائے عامہ بڑی حد تک تقسیم ہے ۔ کچھ کہتے ہیں کچھ نہیں بدلنے والا حالات ایسے ہی رہیں گے ۔ ایک طبقہ کہتا ہے حالات مزید خراب ہونگے ، چند خوش فہم کہتے ہیں آہستہ آہستہ بہتری آئے گی ۔شہریوں کی ایک محدود تعداد احتجاج سے حالات تبدیل کرنے کے حق میں بھی ہے ۔ اس حوالے سے صرف اپوزیشن ہی تضادات کا شکار نہیں ، حکومت کی اپنی صفوں میں متضاد آرا پائی جاتی ہیں ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جبری گمشدگیوں کے کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے اس قبیح عمل کو ختم کرنے کیلئے یقینی حل دریافت کیا تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا ’’دس لاکھ لوگ سڑکوں پر نکل آئیں ، جبری گمشدگیوں کا قصہ ہی ختم ہو جائے گا‘‘ یہ تجویز اس حوالے سے اور بھی اہم ہو جاتی ہے کہ یہ مشورہ کسی سیاسی بندے نے نہیں بلکہ موجودہ حکومت کے اعلیٰ ترین قانونی دماغ نے دیا ہے۔