عظیم دفاعی مفکر میجر جنرل جے ایف سی فلر لکھتے ہیں ’’جنگ کا مقصد فتح نہیں، یہ سیاسی اہداف کے حصول کیلئے ہے‘‘۔ افسوس کہ امریکی صدور نے اس عظیم مفکر کی کتب کا مطالعہ نہیں کیا۔ انہوں نے واضح سٹریٹجک مقاصد کے بغیر چین، روس، ایران، کیوبا اور وینزویلا کے ساتھ معاشی لڑائیاں شروع کر دیں، جو کہ دنیا کا نمبر ون جنگی سردار منوانے اور سزائیں دے کر ذاتی انا کی تسکین کا سامان کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ امریکی انتظامیہ کی زیادہ تر لڑائیاں معاشی تھیں۔ امریکی صدور نے واشنگٹن کے احکامات کی پاسداری نہ کرنے والی ریاستوں کو کچلنے کیلئے امریکا کی معاشی اور مالیاتی طاقت کا کھل کر استعمال کیا ہے۔ واشنگٹن کا اصول ہے ’میری اطاعت وگرنہ!‘۔ معاشی جنگیں خون خرابے سے پاک نہیں ہوتیں۔ 1918ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے سخت بحری ناکہ بندی کے ذریعے جرمنی اور دیگر وسطی طاقتوں کو بدترین فاقہ کشی سے دوچار کر کے انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دعوے کے برعکس تجارتی پابندیوں سے امریکا عظیم تو نہ ہوا بلکہ ان کی وجہ سے امریکا کے خلاف نفرت بڑھ گئی۔ ٹرمپ کی یورپی یونین کو نقصان پہنچانے اور کینیڈا کو دھمکانے کی روش نے امریکی تاثر کو مزید بہیمانہ بنایا۔ مزید براں، چین کے خلاف ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی سے دونوں ملکوں کی معیشت کو نقصان جبکہ دونوں بڑی معاشی طاقتوں کی وجہ سے ایشیا میں
کشیدگی بڑھی۔ ٹرمپ کی کوتاہ اندیش معاشی لڑائیوں کی وجہ سے عالمی معیشت کو بھی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹرمپ اور ان کے مشیروں کی چین سے متعلق بعض شکایات درست بھی تھیں۔ میں نے خود بھی چین کے ساتھ 15سال کاروبار کیا ہے، اس دوران چینیوں کی چال بازیوں، دوہرے معیار اور کرپشن کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ مشرقی چین کی مارکیٹوں کا حال کچھ زیادہ ہی بُرا تھا۔ تاہم یہاں ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ چین اس لحاظ سے ایک نئی مارکیٹ ہے کہ یہاں مغربی طرز کے سرمایہ داری نظام کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ چین نے کئی مشکوک کاروباری حربے فرانس سے سیکھے، جسے تجارتی نظام کی ماں کہا جاتا ہے۔
چین بڑے پیمانے پر ٹیکنالوجی اور ملٹری معلومات کی چوری کرتا ہے۔ مگر یہی امریکا بھی کرتا ہے، جس کے خفیہ ادارے دنیا بھر سے معلومات جمع کرتے ہیں۔ امریکہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ چین کو ’باہمی خوشحالی پر مبنی عظیم تر ایشیا‘ کے دائرے میں امریکی صدر نکسن لائے تھے، جس کا مقصد اسے امریکی دائرہ اثر میں لانا تھا، جیسے 1950ء کی دہائی میں جاپان اور جنوبی کوریا کو لایا گیا تھا۔ امریکا کے ساتھ چین کی فاضل تجارت دراصل واشنگٹن کے اصولوں پر کھیلنے کا منافع ہے۔ اگر چین سے یہ تجارتی بونس چھینا جاتا ہے تو پھر امریکی پالیسیاں بیجنگ نیم دلی سے قبول کرے گا، فوجی کشیدگی میں تیزی آئے گی۔
چین کی نظر میں امریکا وہی کچھ کر رہا ہے جو کہ برطانیہ نے 19ویں صدی میں افیون کی جنگ کا اعلان کر کے کیا تھا، جس کا مقصد برما میں پیدا ہونے والی افیون چین میں کھپانا تھا۔ آج تجارت سویا بین اور سور کے گوشت کی ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ امریکہ کا مقصد تجارت پر بحران پیدا کرنا اور پھر اسے اچانک ڈرامائی انداز میں ختم کرنا ہے۔ امریکی تاریخ کے متنازع ترین سابق صدر ٹرمپ کے منظور نظر حلقوں نے اندر کی معلومات کے بل بوتے پر سٹاک ایکسچینج سے کس قدر مال بنایا، اس پر ابھی تک بات شروع نہیں ہوئی۔ ٹرمپ اور ان کے منظور نظر حلقوں کو یقین تھا کہ وہ آسانی کے ساتھ چین کی کلائی مروڑ سکتے ہیں۔ دوسری طرف چین نے بڑے پیمانے پر غارت گری کا سامنا کیا ہے، جاپان غلبے کے خلاف لڑائی میں دوسری جنگ عظیم کے دوران کم از کم ایک کروڑ چالیس لاکھ اموات دیکھیں۔ جوبائیڈن کو اقتدار سنبھالے ایک برس کا عرصہ گزر چکا اس کے باوجود وائٹ ہاؤس کو نہ جانے یہ غلط فہمی آخر کیوں ہے کہ سویابین اور سیمی کنڈیکٹرز کی لڑائی بیجنگ کو جھکنے پر مجبور کر دے گی؟ چین کے نئے شہنشاہ شی جن پنگ تجارتی لڑائی میں امریکا کے سامنے کبھی سر نہیں جھکائیں گے۔ کسی آمر کے پاس پسپائی کا آپشن نہیں ہوتا۔
تجارتی جنگوں کا کسی فریق کو کبھی فائدہ نہیں پہنچا۔ یہ لڑائیاں بھی لاکھوں افراد کو مشین گنوں کے سامنے کھڑا کر کے ہلاک کرنے سے کسی طرح کم نہیں۔ جنرلوں کیلئے یہ خونریزی وقار کی علامت ہو سکتی ہے مگر عام لوگوں کو موت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اس احمقانہ لڑائی میں انجام کار شرمندگی سے بچنے کیلئے واشنگٹن اور بیجنگ کوئی نہ کوئی سمجھوتا کر کے اسے ختم کر دیں گے۔
(بشکریہ: ڈیلی ہف پوسٹ)