تیسری دنیا میں بڑھتی غربت

تیسری دنیا میں بڑھتی غربت

پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سمیت ایشیا کے 16 ممالک میں ایک ارب سے زائد آبادی دو ڈالر یومیہ آمدنی حاصل کر رہی ہے اور انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت اب عام لوگ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہوتے جا رہے ہیں کہ دنیا بھر میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایشیا کے ممالک بھی اس حوالے سے آنے والی تبدیلیوں اور اثرات سے مبرا نہیں ہیں۔ عالمی سطح پر غربت میں اضافے کے کئی اسباب ہیں، یہ حقیقت اب سبھی کے علم میں ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام سرعت کے ساتھ اپنے پاؤں پھیلا چکا ہے اور عالمی معاشرے میں اس کی جڑیں تیزی سے مضبوط ہو رہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس نظام کے طفیل پوری دنیا میں صنعتیں اور زرعی شعبہ فروغ پذیر ہوتا، کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں تیزی پکڑتیں، عام آدمی کو روزگار کے زیادہ اور بہتر مواقع ملتے اور اس کے نتیجے میں بے روزگاری کے ساتھ ساتھ غربت کی شرح بھی کم ہوتی اور خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے صفر تک پہنچ جاتی لیکن چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کم معاوضے میں زیادہ کام کرانے اور کم سرمایہ کاری کر کے زیادہ منافع حاصل کرنے کے استحصالی اصول پر چلتا ہے اس لیے اس نظام کے فروغ حاصل کرنے سے غربت کم ہونے کے بجائے اس کی شرح میں اضافہ ہو گیا ہے اور غریب، غیر ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اس کا زیادہ شکار بنے، یوں ان کی مشکلات اور تکالیف ختم ہونے کے بجائے دو چند ہو گئی ہیں۔ اس نظام کی بے حسی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اربوں کھربوں روپے کمانے والے ادارے اور کمپنیاں بھی اپنی تیار کردہ مصنوعات کی قیمتوں اور اپنے منافع میں کمی کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بعض کمپنیاں اپنی لاکھوں ٹن زرعی اور ڈیری پیداوار سمندر میں ضائع کر دیتی ہیں لیکن یہ اشیاء دنیا کی مفلس آبادی میں تقسیم کر کے غربت کی شرح میں کمی کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ اسی رویے کی وجہ سے عالمی سطح پر غربت کی شرح میں کمی آ رہی ہے اور نہ ہی ترقی یافتہ ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں در اصل غربت کی شرح کم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی جانب سے اس معاملے میں جو اقدامات کیے جاتے ہیں وہ محض دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں۔ عالمی تجارت پر اپنے پنجے گاڑنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک نے ڈبلیو ٹی او جیسے ادارے قائم کیے اور پہلے سے استحصال کا شکار ممالک اور قوموں کو اس ادارے کے معاہدوں کے ذریعے مزید زنجیروں میں کس دیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے محض سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے ہی عالمی اور علاقائی معیشت پر قبضہ نہیں کیا بلکہ قدرتی وسائل کو اپنے تصرف میں لانے کے لیے افغانستان اور عراق جیسی جنگیں بھی عالمی برادری پر مسلط کیں اور پہلے سے تباہی و بربادی کا شکار ممالک کو عملی طور پر اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ بات طے ہے کہ استحصال اور طاقت کے ذریعے مختلف ممالک پر قبضے کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو دنیا میں مزید تباہی پھیلنے کا اندیشہ برقرار رہے گا اور ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں غربت و افلاس میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور ایشیا کے لوگ بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ یوں یہاں خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی شرح بھی بڑھ جائے گی۔
پاکستان میں غربت میں اضافے کی عالمی سطح پر افلاس کی شرح بڑھنے کے اسباب کے علاوہ بھی کچھ وجوہ ہیں۔ یہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ملکی معاشرتی ترقی کی رفتار اتنی تیز نہیں ہے چنانچہ جتنی ترقی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں وسائل جتنے بڑھتے ہیں بڑھتی ہوئی آبادی وہ سب چٹ کر جاتی ہے اور معاشرہ مجموعی طور پر جمود کا شکار نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت بد ترین مشکلات کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ بڑھتا ہوا افراطِ زر اور روپے کی گرتی ہوئی قدر بھی وہ دو اہم ترین مسائل ہیں جن کا معیشت کو سامنا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ جہاں افراطِ زر کی شرح بلند ہو رہی ہے وہیں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدرگھٹتی چلی جا رہی ہے جس سے مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس نے عام آدمی کے اوسان خطا کر دیئے ہیں۔ دوسری جانب روپے کی گرتی ہوئی قدر کے باعث اس کی کم ہوتی ہوئی قوتِ خرید نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ہے اور اس لیے گزارا کرنا مشکل ترین ہو تا جا رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کے اپنے محلِ وقوع اور عالمی استعماری قوتوں کے مخصوص مفادات کے باعث عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو قرض دیتے وقت عالمی طاقتوں کے اشارے پر پاکستان پر بعض کڑی شرائط اور مطالبات لاگو کر دیتے ہیں اور قرض لینے کی خاطر پاکستان کو اس قسم کی کڑوی گولی نگلنا پڑتی ہے۔ اول قرضوں کی قسط اور سود کی ادائیگی کے باعث پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر جو کہ پہلی ہی بہت ہی کم ہیں خاصا دباؤ پڑتا ہے۔ لہٰذا اس کے نتیجے میں ڈالر کی قدر بڑھتی ہے اور روپے کی قدر تیزی سے کم ہوتی ہے بالآخر نتیجہ مہنگائی کی صورت برآمد ہوتا ہے۔ ادھر عالمی مالیاتی اداروں کے مطالبات پر بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ سبسڈی کا خاتمہ یا اس مد میں بڑی حد تک کمی کا مطالبہ ماننے کے باعث مہنگائی میں اضافہ دیکھا جاتا ہے، جس سے غریب لوگوں کی مشکلات اور بڑھ جاتی ہیں۔ حالانکہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک وہاں غریب عوام کو ریلیف دینے کی خاطر سبسڈی دی جاتی ہے لیکن پاکستان کو ایسا کرنے سے گریز کا کہا جاتا ہے تا کہ پاکستان کی معیشت پر گرفت مضبوط ہوتی چلی جائے۔
تیسری دنیا کی زیادہ تر حکومتیں چونکہ خود کرپٹ ہوتی ہیں اس لیے ملکی مارکیٹوں پر اثر انداز ہونے والے افراد اور عوامل پر ان کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور یہ صورتحال مہنگائی کے منہ زور گھوڑے کو اور زیادہ بے لگام کر دیتی ہے جس کے اثرات عام آدمی کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں اور وہ اپنے روز مرہ اخراجات پورا کرنے کے قابل نہیں رہتے اور ان کا خطِ افلاس سے نیچے آبادی میں شمار ہونے لگتا ہے، اس معاملے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایشیا کے ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ پہلی دنیا پر انحصار کرنے کے بجائے باہمی تعلقات اور تجارت کو فروغ دیں اور ایک دوسرے کی مالی امداد کر کے ضروریات پوری کرنے کی کوشش کریں تو اس کے اچھے اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں