دی لانسیٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، ہندوستان میں گزشتہ سال فضائی آلودگی کی وجہ سے دہلی کو سب سے زیادہ فی کس اقتصادی نقصان ہوا۔ دہلی کا جی ڈی پی کم ہو کر 1.08فیصد رہ گیا ہے، اس کے علاوہ ماحولیات کی آلودگی کے باعث بیماریوں میں تیزی سے اضافہ اور قبل از وقت اموات بھی بڑھی ہیں۔ جی ڈی پی کو سب سے زیادہ نقصان اترپردیش (2.15 فیصد)، اس کے بعد بہار (1.95 فیصد)، مدھیہ پردیش (1.70 فیصد) اور راجستھان (1.70 فیصد) ریکارڈ کیا گیا۔ دی لانسیٹ کے مطابق، فضا کی آلودگی کی وجہ سے ہونے والی اموات اور بیماری، مجموعی طور پر بھارت کے جی ڈی پی کے 1.36 فیصد کے نقصان کا ذمہ دار ہیں۔
معیشت پر فضائی آلودگی کے اثرات اگرچہ فوری طور پر اتنے واضح نہیں، جس قدر گہرے ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دمہ، ذیابیطس یا سانس کی دائمی بیماریوں کی بلند شرح کام کرنے کی صلاحیت کو کم کرنے اور مزدوری کے شعبہ میں کام کرنے کی شرح کو کم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ دمہ کے حملوں کا شکار بچے سکول سے چھٹیوں پر مجبور ہوتے ہیں، جو ان کی تعلیم اور اس کے نتیجے میں آئندہ کی ترقی کو بُری طرح متاثر کر سکتی ہیں، جبکہ ان کی دیکھ بھال اور تیمار داری کی ضروریات کے لیے ان کے والدین کو اضافی وقت درکار ہوتا ہے جو ان کو ملازمت کے اوقات سے نکالنا پڑتا ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کی اموات معاشرے اور معیشت کے لیے ایک بڑے اور ناقابل برداشت نقصان کا باعث ہو سکتی ہیں۔ اس سال کے آغاز میں، ایم آئی ٹی سلوان کی طرف سے جاری کردہ ایک مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر جائزے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فضائی آلودگی نا صرف لوگوں کی جسمانی بلکہ ان کی نفسیاتی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ یہ افسردگی کو بڑھاتی ہے اور علمی کام اور فیصلہ سازی میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا ذمہ دار انسان ہے: حالیہ برسوں میں اس کی صنعتی اور تکنیکی ترقی اور آبادیاتی ترقی اس کی سب سے واضح وجوہات ہیں۔ اس طرح ، آلودگی گیسوں کا اخراج ، فضلہ کی پیداوار ، جنگلات کا کاٹنے اور جلانے ، قدرتی وسائل کا اندھا دھند استحصال ، سرگرمیاں جو صنعت ، کان کنی ، زراعت ، تجارت اور تیل کے استحصال سے وابستہ ہیں۔ ماحولیات کی آلودگی کی سب سے بڑی وجوہات میں ، اسی طرح انسان کی روز مرہ کی زندگی بھی شامل ہے۔
ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں، کاربن کے بڑے پیمانے پر اخراج کی حامل ترقی اور ماحولیات و صحت کے موضوع پر مسلسل بحث جاری ہے۔ لیکن جیسا کہ لانسیٹ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے، آلودگی کا بڑھتا ہوا بوجھ انسانی اور معاشی ترقی کے ان اہم فوائد کو مٹا رہا ہے جن کا حصول کسی بھی ملک کی خواہش ہوتی ہے۔ آلودگی کے باعث ہونے والے نقصانات کا سامنا غریب ریاستوں کو بھی کرنا پڑے گا جو پہلے ہی کمزور معاشرتی انفرا سٹرکچر رکھتی ہیں اور اس سے پہلے سے موجود معاشرتی اور معاشی عدم مساوات کو مزید تقویت ملتی ہے۔
توانائی، ماحولیات اور پانی کی کونسل (سی ای ڈبلیو) کی کونسل کے ایک مطالعے کے مطابق بھارت کے 75 فیصد سے زیادہ اضلاع انتہائی آب و ہوا کے مسائل کا مرکز ہیں اور تیزی سے بدلتے ہوئے مائیکرو کلائمٹ کے املاک، معاش اور جانوں کے زیاں کے مہلک اثرات برداشت کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1970 سے 2005 کے درمیان ہندوستان میں 250 انتہائی آب و ہوا کے واقعات دیکھنے میں آئے جبکہ صرف 2005 میں بھارت کو موسم کی انتہائی تبدیلی کے 310 واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔
ماحولیاتی تبدیلی کے بحران کے حوالے سے بھارت اس وقت انتہائی سطح پر ہے۔ آب و ہوا کے رسک انڈیکس 2018 کے مطابق، بھارت ماحولیات کے حوالے سے خطرے کی درجہ بندی میں نو درجے اوپر آیا ہے اور یوں وہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرے سے دوچار ملک بن چکا ہے۔ طوفانوں نے بگولوں کو بڑھاوا دیا ہے، قحط سالی آدھے سے زیادہ ملک کو متاثر کر رہی ہے اور غیر معمولی پیمانے پر آنے والے سیلاب تباہ کن نقصان کا سبب بن رہا ہے۔ مرکز نے ماحولیاتی تبدیلی کو ترجیحی مسئلہ قرار دینے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن زندگی، روزگار، معیشت اور بنیادی ڈھانچے کو لاحق یہ خطرہ مزید اقدامات کا متقاضی ہے۔
صرف مرکز ہی نہیں اس مسئلہ میں ریاستوں کو بھی کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق ریاستی ایکشن پلان (ایس اے پی سی سی) کو اعلیٰ درجے کی اور وسیع تر صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں بہت سے پائلٹ پروجیکٹس جاری ہیں۔ مؤثر منصوبہ جات کو تیزی سے بڑھانے اور ان کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے۔ ادارہ جاتی اور انسانی صلاحیت کی تعمیر اور ایس اے پی سی سی کی ضلعی سطح پر لوکلائزیشن کی فراہمی پر مزید سخت توجہ دینا ہو گی تاکہ حکام ماحولیاتی تبدیلی اور آب و ہوا کے چیلنجوں کا تیزی سے اور مؤثر طریقے سے جواب دے سکیں۔ رپورٹ میں یہ بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ پرانے معمول کے مطابق رویے اب مزید نہیں چل سکتے۔
(بشکریہ: ہندوستان ٹائمز)