جمہوریت یا بادشاہت

جمہوریت یا بادشاہت


جمہوریت کسی مخصوص نظام کا نام نہیں ہے بلکہ یہ طرز زندگی کا نام ہے ۔ جمہوریت حکومتی نظام کو ترتیب دینے کا طریق کار اور معاشرے پرطرز حکمرانی کا نام بھی ہے۔ جمہوریت کے نتیجے میں وجود آنے والا نظامِ حکومت کئی طرح کا ہو سکتا ہےوہ نظام حکمرانی صدارتی بھی ہو سکتا ہے اور پارلیمانی بھی ۔ اس میں ایسا نظام ہو سکتا ہے جس میں" عوام "براہِ راست حکومتی فیصلے کرتے ہیں، یا پھر اپنے نمائندے منتخب کر کے نظام ترتیب دیتے ہیں عوامی نمائندوں کے ترتیب دیے گئے ان اصولوں کا نام "آئین " کہلاتا ہے ۔ قصہ مختصر جمہوریت آمریت اور بادشاہت کی نفی ہےکیونکہ بادشاہت میں قوموں کے فیصلے فرد واحد کرتاہے۔ آمر کی جائز و نا جائزخواہش قانون بن جاتی ہے۔ لیکن کیا جمہوری طریقے سےآمریت قائم کی جا سکتی ہے ؟۔ جمہوریت کا لیبل لگا دینے سے نظام جمہوری نہیں ہو جاتا۔ جمہوریت کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں مگر اس کا صرف ایک ہی اصول ہے کی عوام کی رائے اور مشورے سے عوام کی فلاح کے لیے نظام ترتیب دیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے جمہوریت کے اسی اصول کی بِنا پر جمہوری نظام کے بے تاج بادشاہ عوام کو بیوقوف بنا تےہیں اور اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔


وطنِ عزیز میں رائج جمہوریت صرف "ووٹنگ سسٹم" کا نا م ہے جس میں ہر فرد کی رائے برابر ہے،چاہے وہ پڑھا لکھا اور باشعور انسان ہے جو تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ کون ملک کا سربراہ بننے کے قابل ہے۔ جو ووٹ کی اہمیت سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ ووٹ کی شکل میں اس پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد ہے۔جبکہ دوسری طرف ایسا شخص ہو جس کا حکومت اور حکومتی نظام سے کوئی تعلق نہیں، جس کی ساری عمر اپنی بھوک سے لڑنے میں گزر جاتی ہے ، جس کے لیئے روٹی سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں،جو ایک وقت کے کھانے کے عوض اپنا ووٹ بیچ دیتا ہے اور اس کی اصل قیمت سے نا واقف ہے۔ اس کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس ووٹ میں اتنی طاقت ہے کہ یہ اس کو زندگی کی تمام تر سہولیات دلا سکتا ہے بشرطیکہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ مگر ہمارے حکمران عوام میں یہ شعور پیدا نہیں ہونے دینا چاہتے ۔ وہ بس اتنے ہی لوگوں کو تعلیم کے ذرائع فراہم کرتے ہیں یا ہونے دیتے ہیں کہ جن سے ملک کا نظام چلتا رہے اور جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوئی بادشاہت کو بھی نقصان نہ پہنچے۔ کیا ایسا نظام جمہوریت کہلا سکتا ہے جس میں عوام کو اپنی رائے (ووٹ) دینے کا حق تو دیا جائے مگر اس کی اہمیت اور صحیح استعمال کو سمجھنے کے حق سے محروم رکھا جائے اور عوام کو کٹھ پُتلی کی طرح استعمال کیا جائے انہیں ایک وقت کی روٹی دے کر ووٹ لیا جائے اور پھر اس کو اس کے حال پر چھوڑ کر اپنی تجوریاں بھرنے کی طرف توجہ مرکوز کر لی جائے۔ یہ ایک ایسا طرزِ حکومت ہے کہ جس میں آدمی کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا اور گنتی میں جاہل بھی ایک ہوتا ہے اور عالم بھی۔

عائشہ فاطمہ

(ادارے کا بلاگر کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں )