موجودہ حالات میں اگر ملک میں کہیں پر بھی نظر دوڑائی جائے تو جینا بہت دشوار لگتا ہے کبھی مہنگائی کی وجہ سے تو کبھی گرمیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اور اب سردیاں آتے ہیں سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے۔ملک میں جاری گیس کی 23،24 گھنٹوں کی علانیہ اور غیرعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے اہل پاکستان کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے۔گیس کے مسلسل تعطل اور کم پریشر کے باعث جو فیکٹریاں گیس کے ذریعے اپنا کام چلاتی تھی ان کے کام ٹھنڈے پڑ گئے ہیں اور اس سے معاشی ترقی کی رفتار قابل ذکر حد تک سست روی کا شکار ہو چکی ہے گھریلو خاتون جو گھروں کے چولہے چلا کر کھانا تیار کرتی تھی ان کا کہنا ہے کہ ہماری زندگیاں تو اذیت ناک ہو چکی ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو صنعتیں سردیوں کے آتے ہی بند ہو جاتی ہیں ان سے شاید ہمارے ملک کی معاشی ترقی کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے اور جب ان دنوں میں فیکٹریاں بند کی جاتی ہیں تو ڈاؤن سائزنگ بھی عروج پر ہوتی ہے جس سے ہمارے ملک میں بے روزگاری عروج پر پہنچ جاتی ہے۔اور کچھ رہی سہی کسر پچھلے دو سالوں سے کرونا نے پوری کر دی ہے اور رہی سہی کسر حکومت تو ماشاء اللہ سے پوری کر ہی رہی ہے مہنگائی کی صورت میں۔لوگوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ رہے ہیں کچھ حکومت کی نااہلی سے تو کچھ اب یہ گیس کی لوڈشیڈنگ سے جو صنعتیں سردیوں میں بند کی جاتی ہیں گیس نہ ملنے کی وجہ سے وہ دو تین ماہ میں اپنا کافی نقصان کر لیتی ہیں اور اس نقصان کا خمیازہ صرف اور صرف اس شخص کو بھگتنا پڑتا ہے جو اس فیکٹری کا ملازم ہوتا ہے کیونکہ فیکٹری مالک تو یہ بول دیتا ہے کہ کام نہیں تو ملازم کو تنخواہ کہاں سے دوں گا اور اسے فارغ کر دیتا ہے۔
اور اس فیکٹری کا مالک تو صرف اپنے دماغ میں ایک ہی بات رکھتا ہے کہ جب فیکٹری کھلے گی تو نئے اور ملازم رکھ لوں گا مگر کوئی اس غریب بندے سے پوچھتا ہے جس کے گھر کا چولہا مہینے کی اس بیس ہزار سے چلتا ہے نہیں اس شخص کا کوئی نہیں سوچتا اور نہ ہی اس مالک سے پوچھتا ہے جو ہر سال اپنے ملازم تبدیل کرتا ہے اوپر سے رہی سہی کسر ہماری حکومت بھی ان باتوں پر نظر ثانی نہیں کرتی کہ وہ ان فیکٹریوں کے مالکان کو پابند بنائے کہ وہ ان مہینوں میں اپنے ملازم کو نوکری سے نہیں نکالے گی۔اور حکومت صرف اس وجہ سے ان چیزوں پر نظر ثانی نہیں کرتی کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ اگر وہ ان مالکان کو پابند بنائے گی تو ان مالکان کے ساتھ حکومت کو بھی کوئی نہ کوئی ساتھ دینا ہوگا جس سے ان کی فیکٹری سائیکل چلتا رہے اسی لئے حکومت ان کا ساتھ نہیں دیتی اور نہ ہی ان مالکان کو پوچھتی ہے اور اس لیے غریب شخص جو فیکٹری میں کام کرتا ہے وہ رل جاتا ہے۔
یہاں پر بات تو یہ آتی ہے کہ سوچا جائے کو حکومت کو کیوں فرق پڑے گا ان کے گھروں کے چولہے میں گیس قاعدگی سے آئے گی اور ہر روز دال گوشت بھی بنے گا فرق صرف اسے پڑے گا جو مہینے بھر محنت کرے گا اور گھر کا چولہا جلائے گا ہمارے ملک میں اس وقت ایک غریب بندے کا حال بہت برا ہے۔ہمارے ملک میں آئے روز سنتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے اپنے گردے بیچ دیے صرف اپنے پیٹ کی خاطر یہ کہوں گی کہ وہ رک گیا اس نے چند لمحے سوچا اور پھر پورے یقین سے بولا میں پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے دونوں گردے بیچنے کے لئے تیار ہوں مگر سوچنا یہ ہے جو پیٹ کے پالنے کے لیے دونوں گردے بیچ رہا ہے تو وہ زندہ کیسے رہے گا ؟مگر جب ہم غریب آدمی سے پوچھتے ہیں جو گردے بیچنے کے لئے تیار ہوتا ہے کہ تم دونوں گردے بیچ کر زندہ کیسے رہو گے وہ یہ کہتا ہے کہ میں زندہ ہو ہیں کب روز اپنی لاش کندھوں پر اٹھا کر گھومتا ہوں مگر جب ہم غریب عوام سے پوچھتے ہیں کہ اس کا حل کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں خدارا حکومت ہم سے کئے گئے وعدے پورے کرے اور ہمیں مہنگائی کی آڑ میں کبھی گیس کی لوڈشیڈنگ کے آڑمیں ہمارے روزگار سے کھیلنا بند کرے۔
ہماری حکومت ہمارے وزراء بہت آرام سے زبان ہلا کر کہہ دیتے ہیں کہ ایک دو ماہ کے لئے گیس بند کر دی جائے اور ان کے حکم کو سر آنکھوں پر رکھتے ہوئے ایسا ہی ہوتا ہے گیس بند کر دی جاتی ہے کیونکہ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ جب صنعتوں اور پمپ کو گیس کی فراہمی بند کی جائے گی تو گھریلو صارفین کو گیس کا پریشر اور گیس کی فراہمی صحیح طریقے سے کی جائے گی۔مگر وہیںپر اگر گھریلوصارفین کے اوپر نظر ڈالی جائے وہ لوگ الگ پریشان ہوتے ہیں کہ گھر میں گیس نہیں ہے سیدھے سیدھے 23،23گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے گیس کی۔جو ایک گھنٹے کے لیے گیس آتی ہے اس کا کوئی ٹائم ہی نہیں ہوتا لوگ مہنگائی سے پریشان تھے مگر ایک وقت کی روٹی کے پیسے آتے تھے ان کے پاس جو اب نیا تماشہ شروع ہو گیا ہے کہ اس روٹی کو پکانے کے لئے گھر میں گیس نہیں موجود تو عوام اس حال میں کیا کرے روٹی کھائیں یا روٹی پکانے کے لئے سلنڈر بھروائے۔
یہاں پر بات کرنا چاہوں گی کہ حکومت کے وہ بلند و بالا دعوے کہاں گیا وہ سمندر جہاں سے گیس ملنی تھی جس کا انکشاف ہوا تھا کہ سمندر کے اس زمینی حصے میں گیس موجود ہے کیا حکومت میں یہاں بھی عوام کو صرف ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا تھا ؟گرمیاں آتے ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ سردیاں آتے ہی گیس کی لوڈشیڈنگ ،چلیں وزیراعظم صاحب اب آپ ہی جواب دے دیں آپ تو کہتے تھے کہ ملک کی کمان سنبھالتے ہی دودھ شہد کی نہریں بہہ جائیں گی کیا وہ بھی وعدے ہی رہے آپ تو کہتے تھے کہ آپ لوگوں کے پاس ایسا ایک چراغ آ گیا ہے جو سمندر سے کہیں سے گیس ہونے کا انکشاف کر رہا ہے تو وہ کیا سب ایک دلاسہ تھا عوام کو تھا ؟
کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم صاحب اور ان کے وزراء جتنی باتیں خواب میں دیکھتے ہیں وہ عوام کو سچ کہہ کر بتا دیتے ہیں مگر یہ خواب بھی وہ ایسے دیکھتے ہیں کہ جن کی کوئی تعبیر ہی نہیں ہم پچھلے چند سالوں سے ہی سنتے ہیں کہ ملک میں بہت کرپشن ہوئی ہے۔اگر کرپشن کے معنی سمجھنا چاہیں تو آپ کو بتاؤں بدعنوانی کو بین الاقوامی زبان میں کرپشن کہا جاتا ہے۔کرپشن ذاتی مفاد کے لئے اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانا کو کہتے ہیں۔
مگر یہاں لگتا ہے کہ سب کچھ ہی بگڑا ہوا ہے اور یہی دیکھا ہے ہر حکومت کے جانے کے بعد آنے والی حکومت حالات ہی خراب ہونے کا رونا روتی رہتی ہے اور الزام ماضی کی حکومتوں پر ڈال دیتی ہے۔آخر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ خدارا عوام پر ترس کھائیں ورنہ آنے والے انتخابات میں جو ووٹ لینے کے لیے علاقوں کا رخ کریں گے آپ تو اپنے کان بند کر کے جائیے گا کیونکہ باقی حکومتوں کی طرح جب آپ بھی اپنے حلقوں میں ووٹوں کے لئے جائیں گے تو برتن بجانے کی آوازیں سنائی دیں گی کبھی چھتوں پر تو کبھی سڑکوں پر اور پھولوں کے بجائے ان برتنوں کی آواز سے آپ کا استقبال ہوگا ۔