ابوالاثر حفیظ جالندھری کی یاد میں

08:24 AM, 21 Dec, 2021

عزیز حامد مدنی کا ایک معروف شعر ہے : 
وہ جن کے دم سے تری بزم میں تھے ہنگامے 
گئے تو کیا ، تری بزم خیال سے بھی گئے!
بات یہ ہے کہ عامی تو کیا بڑے بڑے نامیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا آیاہے۔ بزمِ دنیا سے کیا رخصت ہوئے کہ دل و دماغ سے بھی رخصت ہو گئے، خیال و خواب ہوگئے ۔ تاریخ ادب اردو کے اوراق بتاتے ہیں کہ تقسیم سے قبل ہمارا شہر لاہور سیاسی، ثقافتی ، ادبی اور صحافتی ہنگاموں کا ایسا مرکز تھا کہ ان ہنگاموں کی گونج اور گمک پورے برعظیم میں سنی جاتی تھی اور مدتوں تک فضا میں ارتعاش پیدا کرتی رہتی تھی۔ تقسیم کے بعد بھی ایک لمبے عرصے تک یہی صورت حال رہی۔ اب وہ چلن رُو بہ زوال ہے۔ بساطِ ادب سے بہت سے اہم لکھنے والے رخصت ہو گئے ، حوض سے حاشیے میں آئے اور پھر گم شدگی کے پاتال میں اتر گئے ۔ ہم میں سے آج کتنے ہیں جو تاثیر، تاجور، چراغ حسن حسرت، کیفی ، خواجہ دل محمد، اکبر شاہ خان نجیب آبادی، مولوی خلیل الرحمن، عبداللہ العمادی، غلام بھیک نیرنگ اور متعدد دوسروںکی ہنگامہ خیز شخصیات سے کماحقہ آگاہی رکھتے ہیں اور ان کے ادبی کارناموں سے پوری طرح واقف ہیں۔ شاید زندگی اور زمانے کی روش ایسی ہی رہی ہے اور یوں ہی رہے گی۔ ایسی ہی ایک نہایت اہم اور ہنگامہ پرور شخصیت ابوالاثر حفیظ جالندھری کی بھی تو تھی۔ برعظیم کا کوئی بھی مشاعرہ ان کے بغیر روکھا پھیکا رہتا تھا۔ ان کے گیتوں اور نظموں نے پورے نیم براعظم میں تہلکہ مچا رکھا تھا۔ ان کی مترنم اور متحرک بحروں پر پراں نظموں اور دل کی تہوں میں اُتر جانے والے گیتوں نے ایک قیامت برپا کر رکھی تھی اور ان سب پر مستزاد ان کا مخصوص ترنم۔ کیا اردو شاعری ’’جلوہ سحر‘‘، ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘، ’’برسات‘‘ ، ’’لو پھر بسنت آئی‘‘، ’’جاگ سوزِ عشق جاگ‘‘، ’’دل ہے پرائے بس میں‘‘، ’’ٹوٹی ہوئی کشتی کا ملاح‘‘، ’’میرا سلام لے جا‘‘، ’’رقاصہ‘‘، ’’تصویر کشمیر‘‘، ’’درۂ خیبر‘‘ اور ’’اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے‘‘ جیسے شعر پاروں کو نظرانداز کر سکے گی تو ادھوری نہیں رہ جائے گی؟ 
حفیظ نے اُس زمانے میں اپنی ادبی و شعری سرگرمیوں کا آغاز کیا جب اقبال کی شاعری کا آفتاب نصف النہار پر تھا۔ اُس دیوزاد کی موجودگی میں اپنے وجود کا ثبوت لانا آسان نہ تھا۔ حفیظ کے اُستاد مولانا گرامی نے انھیں تقلیدکی روش سے باز رہنے کا جو درس دیا تھا اُسی سے ان کی منفرد اور مجتہدانہ شاعری کا اکھواپھوٹا اور سربلند درخت بنا۔ سر عبدالقادر کی تھپکیوں اور سرپرستیوں نے ان کے اعتماد میں اضافہ کیا، اقبال کے مشوروں نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور ان کے وجود میں مسلم نشأۃ ثانیہ کا بیج ڈالا۔ یہ بیج شاہنامۂ اسلام کی چار پُر بہار فصلوں کی صورت میں بارآورہوا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاہنامۂ اسلام پر حالی اور اقبال کے ابر گہربار کا واضح فیضان ہے۔ ریاست بھوپال نے اس معرکہ آرا مثنوی کی اشاعت پر انھیں ’’فردوسیِ اسلام‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ۱۹۶۳ء میں شائع ہونے والے افکار کے حفیظ نمبر میں درج ہے کہ اب تک ’’شاہنامۂ اسلام‘‘ کی پچاس لاکھ جلدیں شائع ہو 
چکی ہیں۔ ممکن ہے اس اطلاع میں مبالغہ ہو مگر اس میں شک نہیں کہ آج سے تیس چالیس برس پہلے تک یہ کتاب برعظیم کے درد مند محبانِ اسلام کے گھرانوں کی نہایت مقبول کتابوں میں شمار ہوتی تھی اور مولود کی محفلوں میں کثرت سے پڑھی جاتی تھی۔ حفیظ نے ’’شاہنامۂ اسلام ‘‘ کی چوتھی جلد کے دیباچے میں اپنے اس غیر معمولی شعری کارنامے کے حوالے سے جو کچھ لکھا تھا اس سے ان کے ایقان اور اعتماد کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے خیال میں : یہ ایک قلعہ ہے جو فولادی اور سنگلاخ بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے۔ اس کی دیواریں پھول پتّی سے نہیں اٹھائی گئیں ۔ اس کے بروج کو غنیم حوادث کا مقابلہ کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ ان بھاری پتھروں کی تراش خراش اور ان کو محلِ مناسب پر جمانے کے لیے جو صنعت اور مہارت استعمال کی گئی ہے وہ فنِ شیشہ گری سے الگ ہے۔ اس قلعے کا حسن ، اس کے رعب ، ہیبت اور وقار میں ہے، ناز کی اور لچک میں نہیں کیونکہ یہاں نازکی اور لچک کمزوری پر دلالت کریں گے۔ 
حفیظ پاکستان کی ملتِ اسلامیہ کی بقا اور اس کی نشاۃ ثانیہ کے خواب دیکھنے والے دردمند شاعر تھے اور ملک میں بڑھتے ہوئے فکری انتشار اور عمرانی و سیاسی آشوب پر دل گرفتہ رہتے تھے ۔ اپنے آخری شعری مجموعے ’’چراغِ سحر ‘‘ کے یہ چند شعر اس ضمن میں قارئین کی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں: 
ہر بوالہوس ہے مستِ مئے نابِ اقتدار
میلا یزیدیوں کا لگا ہے فرات پر
بعدِ وفاتِ قائداعظم یہ ’’صاحبی‘‘
انگریزیت کا بھوت سرِ باقیات پر
کس کو سنائیں حال وطن اے خدائے پاک
امید کا مدار ہے تیری ہی ذات پر!
اگر حفیظ آج زندہ ہوتے اور وطنِ عزیز کے ہولناک زوال کے ناظر ہوتے تو نہ جانے ان پر کیا گذرتی۔ تاہم اقبال ہی کی طرح وہ بھی اپنے اسی درس کو دہرانے سے باز نہ آتے جو تخلیقِ آرزو اور عشق کی لازوال قوت کا حامل اور مُنّاد تھا۔ اپنے لافانی گیت ’’جاگ سوزِ عشق جاگ‘‘میں انھوں نے کس ایقانی پیرائے میں سوزِ عشق کو آواز دی تھی اور اس کے حیات بخش فیضان کو نمایاں کیا تھا: 
(۱) جاگ سوزِ عشق جاگ / اے مغنّیِ شباب /جاگ خواب ناز سے / دل شکستہ ہے رباب/ عرصۂ دراز سے/ مرگئے قدیم راگ /جاگ سوزِ عشق جاگ /(۲) جاگ سوزِ عشق جاگ / تو جو چشم وَا کرے /ہر امنگ جاگ اٹھے/ آہ و نالہ جاگ اٹھے/راگ رنگ جاگ اٹھے /جوگ سے ملے بہاگ / جاگ سوزِ عشق جاگ /(۳)جاگ سوزِ عشق جاگ /جاگ اے نظر فروز / جاگ اے نظر نواز/ جاگ اے زمانہ سوز/جاگ اے زمانہ ساز/ جاگ نیند کو تیاگ/ جاگ سوزِ عشق جاگ 
عشق کی یہی انقلاب پروری جب رجزیہ اور جہادیہ پیرائے میں ڈھلتی ہے تو ’’بزم نہیں رزم ‘‘ جیسا جذبہ خیز اور ولولہ انگیز شعری مجموعہ ظہور میں آتا ہے۔ 
حفیظ کی شعری کائنات میں گیتوں اور نظموں کے علاوہ زندہ اور توانا غزلوں کا بھی قابل قدر سرمایہ موجود ہے جو دلوں کو گرماتا اور ان میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ ان کے بہت سے شعر آج بھی میری عمر کے لوگوں کو یاد ہیں۔کیسا کیسا توانا شعر حفیظ نے کہا ، غزل کے دامن کو گلزمین کیا اور ایجاز کی جوت جگائی: 
رندانِ مے پرست سیہ مست ہی سہی /اے شیخ گفتگو تو شریفانہ چاہیے/ ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوںتوڑ دیتا ہوں/کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے/الہٰی دلنوازی پھر کریں وہ مے فروش آنکھیں/ الہٰی اتحادِ شیشہ و پیمانہ ہو جائے/ہے ازل کی اس غلط بخشی پہ حیرانی مجھے/عشق لافانی ملا ہے زندگی فانی مجھے/اس شوخ نے نگاہ نہ کی ہم بھی چپ رہے/ہم نے بھی آہ آہ نہ کی ہم بھی چپ رہے/مجھے یاد ہے اپنا انجام ناصح/ میں اک روز مر جاؤں گا بس یہی نا/مجھے ذلیل نہ کر عذر لن ترانی سے/ یہ اہلِ ذوق کی توہین ہے جواب نہیں/ ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آسکے/ تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمھیں بھلا سکے/جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں /وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں/ چراغِ خانۂ درویش ہوں میں/ادھر جلتا اُدھر بجھتا رہا ہوں/منظور، منظور اے اہلِ دنیا /اللہ میرا باقی تمھارا/پھر یہ جہنم کس کے لیے ہے/ آمرز گارا ، آمرز گارا۔
حق یہ ہے کہ ’’اللہ میرا باقی تمھارا‘‘ کی یہی بے رنگ ردا تمام عمر اس شاعر کجکلاہ کا اوڑھنا بچھونا رہی ۔ آج دسمبر کی اکیس تاریخ ہے ۔ اِسی تاریخ کو آج سے انتالیس برس پہلے (۱۹۸۲ء میں) اِس شاعرِ خدا آگاہ نے (جو نثر نگار بھی غضب کا تھا)داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ اللہ مغفرت فرمائے۔ 

مزیدخبریں