وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمداختر نے 130ویں جلسہ عطائے اسناد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طلباو طالبات ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے کردار ادا کریں۔ پنجاب یونیورسٹی معاشرے کی فلاح و بہبود پر مشتمل تحقیقی منصوبہ جات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ تحقیق پر خصوصی توجہ کے باعث پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار ایک سال میں 289 پی ایچ ڈیز پیداہوئے۔
تقریب میں پرووائس چانسلرمحترم پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر،محترم پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود ( ڈین شعبہ انفارمیشن مینجمنٹ )، محترم پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ خان ( ڈین فیکلٹی آف لاء) کے علاوہ سینئر اساتذہ ، رجسٹرار ڈاکٹر محمد خالد خان، کنٹرولر امتحانات محمد رؤف نواز، ایڈیشنل کنٹرولر راجا شاہد جاوید، سینٹ و سنڈیکیٹ کے ارکان، طلباوطالبات اور ان کے والدین نے شرکت کی۔ بعد ازاں جناب وائس چانسلر نے رجسٹرار ڈاکٹر محمد خالد خان کی پنجاب یونیورسٹی کیلئے 32سالہ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یادگاری سوینرپیش کیا۔کانووکیشن میں 289پی ایچ ڈی سکالرز کو ڈگریاں پیش کی گئیں جبکہ ایم ایس /ایم فل کے123، ایم اے/ایم ایس سی کے67اور بی ایس کے75طلباو طالبات کو میڈلز دئیے گئے۔ تقریب میں کل 1166ڈگریاں اور میڈلز تقسیم کئے گئے۔
اس موقع پر جناب ڈاکٹر نیاز احمد اخترکا کہنا تھا کہ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی ادارے انتھک محنت کے باعث دنیا میں تیزی سے اپنا مقام بنا رہے ہیں اگر یہ ادارے محنت نہ کر رہے ہوتے تو دیگر سرکاری اداروں کی طرح بدحالی کا شکار ہو جاتے۔ پنجاب یونیورسٹی کو دنیا کی پہلی 500 یونیورسٹیوں میں شامل کر نا خواب تھا جس کیلئے 2018ء میں اقدامات کا آغاز کیا۔ پنجاب یونیورسٹی کا پیٹرولیم انجینئرنگ کا شعبہ دنیا کے بہترین 100 تا 150اداروں میں شامل ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی بین الاقوامی رینکنگ میں بہتری سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس کیلئے کئی اقدامات کئے گئے۔ماضی میں پروفیسرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی تعداد70 سے تجاوز نہیں کرتی تھی مگر اب ہمارے پاس 150کے قریب پروفیسرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز ہیں۔ہم اب ریسرچ کے شعبے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں تاکہ یونیورسٹی کی عالمی درجہ بندی بہتر ہو۔ اسی لیے ہم نے کئی انسٹی ٹیوٹس کے ذیلی ڈیپارٹمنٹس بڑھا دیے ہیں تاکہ ہر شعبے پر انفرادی توجہ دی جا سکے۔اب وقت آگیا ہے کہ جامعہ پنجاب کا سوشل ڈویلپمنٹ میں بھی رول بڑھایا جائے اور یہاں کی تحقیقات کو نہ صرف عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہو بلکہ ان تحقیقات کا سماجی سطح پر پاکستان کے سوشل فیبرک میں ہمارا حصہ پہلے سے زیادہ ہو۔
ڈاکٹر نیاز احمد اختر صاحب کے دور میں کم وبیش پچانوے فی صد اساتذہ اور ملازمین کو اگلے سکیل میں ترقی دی گئی ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پروفیسروں کی تعداد تقریباً 140 تک پہنچ چکی ہے۔ ماضی میں یہ تعداد کبھی 80 کا ہندسہ عبور نہیں کر سکی۔ انہوں نے عہدہ سنبھالا تو جامعہ میں پچاس کے لگ بھگ ایسوسی ایٹ پروفیسر موجود تھے۔اب یہ تعداد بڑھ کر 120 ہو چکی ہے۔ابھی حال ہی میں کم وبیش ایک سو نئی اسامیاں تخلیق کی گئی ہیں تاکہ لوگوں کو ترقی کے مزید مواقع میسر آسکیں۔ یہ ترقیاں اور روزگارکا سلسلہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب معاشی حالات کی وجہ سے ملک بھر میں لاکھوں لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔ سرکاری اور نجی اداروں میں ہزاروں افراد کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑ رہے ہیں۔
محترم ڈاکٹرنیاز احمد نے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد تعلیمی معیار کی طرف توجہ دی۔ ڈاکٹر صاحب نے آئندہ پچاس سال کے لئے ملکی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام فیکلٹیوں اور شعبہ جات کے ڈھانچے کو جدید دور کی تعلیمی و تحقیقی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کے لئے کام شروع کیا۔ ان کی محنت اور توجہ کی بدولت آج پنجاب یونیورسٹی میں کل 19 فیکلٹیاں قائم ہو چکی ہیں جبکہ شعبہ جات کی تعداد اور سنٹر 150 ہو چکے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کی فیکلٹیوں اور شعبہ جات کی تنظیم ِ نو سے ملکی سطح پر تعلیمی قیادت کے فقدان سے نمٹنے اور جدید تمام شعبوں میں جدید تقاضوں کے مطابق بین الاقوامی معیار کے گریجوایٹس پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
محترم ڈاکٹر نیاز کے دور میں جامعہ پنجاب میں قائم ہونے والے نظم و ضبط کا پہلو بھی قابل تحسین ہے۔انہوں نے یقین محکم اتحاد اور نظم و ضبط جیسے انقلابی اصولوں پر عمل کر کے دکھایا۔ یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی نظم و ضبط صاف نظر آتا ہے۔اکثر و بیشتر پنجاب یونیورسٹی لڑائی جھگڑوں، مظاہروں، اور احتجاج وغیرہ کے حوالوں سے خبروں میں رہا کرتی تھی۔ ان دو برس میں بدامنی کا خاتمہ ہوا ہے اور کیمپس کا ماحول پرسکون دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے طلبا کی اخلاقی تربیت کے لیے ایک مرکز قائم کیا ہے تاکہ مادر علمی سے فارغ ہونے والے طلبا جب سماج میں جائیں تو وہ مثالی کردار کے حامل ہوں اور پاکستان میں اجالا کرنے کا باعث بن سکیں۔انہوں نے ثابت کر دکھایا کہ اگر پاکستان میں نیک نیت دیانت دار اور اہل افراد کو اداروں کی سربراہی کا موقع دیا جائے تو اداروں کو کامیابی کے ساتھ چلایا جا سکتا ہے اور ان کی استعداد کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
وائس چانسلر صاحب سفارش اور اقربا پروری کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ انہوں نے ہر کام قانون، میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پرکرنے کی ٹھان لی اور ایسا کر کے بھی دکھایا۔انہوں نے واضح کر دیا کہ آئندہ کسی استاد کو ذاتی پسند یا ناپسند پر نہ ترقی ملے گی اور نہ عہدے ملیں گے۔ ایک پروفیسر ایک ہی عہدے پر کام کرے گا۔ پنجاب یونیورسٹی میں قائم تمام شادی ہالز کو بند کر دیا گیا کیونکہ تعلیمی اداروں کی زمین کو کمرشل بنیادوں پر استعمال کرنا بالکل غلط ہے۔ یونیورسٹی کو بین الاقوامی رینکنگ میں لانے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر کام شروع کیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ وہ بڑی محنت اور جانفشانی سے پنجاب یونیورسٹی کو انٹرنیشنل رینکنگ میں بہتر پوزیشن میں لائے ہیں۔ سینٹر فار ورلڈ یونیورسٹی رینکنگز کے مطابق پنجاب یونیورسٹی دنیا کی بہترین 801 سے 1000 جامعات کی فہرست میں شامل ہے۔ پنجاب یونیورسٹی اپنے بجٹ کا 70 فیصد اپنے وسائل سے پورا کرتی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ڈاکٹر نیازاحمد اختر صاحب کو مزید اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ان کی سرپرستی میں جامعہ پنجاب یونہی ترقی کے منازل طے کرتی رہے اور اس کے بطن سے وطن کے نونہال علمی و ادبی میدان میں جھنڈے گاڑتے رہیں۔