کہتے ہیںکسی زمیندار کی بھینس نے دودھ دینا بند کر دیا،زمیندار بڑا پریشان ہوا۔اسی پریشانی کے عالم میں وہ اس بھینس کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا۔ڈاکٹر نے ٹیکے لگائے لیکن کوئی فرق نہ پڑا،تھک ہار کر وہ بھینس کو شاہ جی کے پاس لے گیا۔شاہ جی نے دھونی رمائی، دم کیااور پھونک بھی ماری۔لیکن وہ بھی بے سود رہی۔بھینس کو کوئی فرق نہ پڑا ۔ اس کے بعد وہ بھینس کو کسی سیانے کے پاس لے گیا۔سیانے نے دیسی ٹوٹکے لگائے۔لیکن وہ بھی بیکار ثابت ہوئے۔ آخر میں زمیندار نے سوچا کہ شائد اس کا کھانا بڑھانے سے مسئلہ ٹھیک ہو جائے۔ تو وہ اسے ماں جی کی خدمت میں لے گیا۔ ماں نے خوب کھل بنولہ کھلایا، پٹھے کھلائے۔کسی چیز کی کسر نہ چھوڑی لیکن پھربھی بھینس نے دودھ دینا شروع نہ کیا۔ہرجگہ سے مایوس اورلاچار ہو کرآخرکار وہ اسے قصائی کے پاس لے کر جانے لگاکہ یہ اب کسی کام کی نہیں تو چلو ذبح ہی کرا لوں۔ وہ بھینس کوقصائی کے پاس لیکرہی جارہاتھاکہ راستے میں اسے ایک سائیں ملا۔سائیں بولا۔پریشان لگتے ہو۔زمیندار نے اپنی پریشانی بیان اورساری داستان سنادی۔قصہ سن کرسائیں فوراًسمجھ گیاکہ مسئلہ کیاہے ۔؟اس لئے سائیں نے پہلاسوال یہ کیاکہ تم کٹا کہاں باندھتے ہو۔۔؟"، زمیندار بولا۔بھینس کی کھرلی کے پاس۔ سائیں نے پوچھا ’’کٹے کی رسی کتنی لمبی ہے۔؟‘‘ زمیندار بولا ’’کافی لمبی ہے‘‘ سائیں نے اونچا قہقہہ لگایا اورسکون سے بولا "سارا دودھ تو کٹا چنگ جاتا ہے۔ایسے میںتمہیںکیا ملے گا۔۔؟ ڈاکٹر، حکیم اور قصائی کے پیچھے بھاگنے کے بجائے تم صرف ایک کام کروکہ کٹے کو بھینس سے دور باندھو۔اس زمیندارجیسامسئلہ آج ہمارے ساتھ بھی ہے۔اس زمیندارکی توقسمت اچھی تھی کہ وہ چندٹھوکریں کھانے کے بعدحقیقت کوسمجھ گیالیکن ہم پچھلے 73سال سے ٹھوکروں پرٹھوکریں کھانے کے بعدبھی اس مسئلے اورحقیقت کوتاحال نہیں سمجھ سکے ہیں۔بے پناہ قدرتی وسائل اوراللہ پاک کی دی ہوئی ہرنعمت کے باوجودہمیں آج بھی یہ گلہ ہے کہ ہماری بھینس کسی کام کی نہیںحالانکہ حقیقت اس سے مختلف بہت ہی مختلف ہے۔زمیندارکے صرف ایک کٹے کی رسی لمبی تھی اوراس نے اس کی نیندیں حرام کردی تھیں ۔پھرہمارے کٹوں کی رسیاں ہی لمبی نہیں بلکہ سارے ’’کٹے‘‘ ہی کھلے ہوئے ہیں۔آپ پرائمری سکول کے ایک ٹیچرسے لیکریونیورسٹی کے وائس چانسلرتک۔۔بی ایچ یوکے ایک عام ڈاکٹروڈی ایچ کیوکے ایم ایس سے لیکرمیڈیکل انسٹیٹیوٹ کے ہاسپٹل ڈائریکٹرتک۔۔واپڈاکے ایک لائن مین سے لیکرچیئرمین تک۔۔گیس کمپنی کے ایک میٹرریڈرسے لیکراس کے سربراہ تک۔۔نادراکے ایک چوکیدارسے لیکراس کے چیئرمین تک۔۔ایک ویلج کونسلرسے لیکرتحصیل اورضلع ناظم تک۔۔ایک
کھلاڑی سے لیکرپی سی بی کے چیف تک۔۔پی آئی اے کے ایک چھوٹے سے نگہبان سے لیکرکپتان تک۔۔ریلوے کے ایک قلی سے لیکراس کے انجینئرتک۔۔ایم پی اے سے لیکرایک ایم این اے تک۔۔وزیرسے لیکرایک مشیرتک۔۔مطلب مشرق سے مغرب اورشمال سے جنوب تک آپ پورے ملک میں ایک ایک محکمے اورایک ایک ادارے کوسرسے پائوں تک دیکھیں تو آپ کوایک دونہیں ہزاروں اور لاکھوں موٹے تازے سرکاری کٹے ہرجگہ کھلے ہوئے ملیں گے۔اس زمیندارکی طرح اپنے ان محکموں اور اداروں سے دودھ نہ ملنے کی شکایت اور پریشانی تو ہمیں ہے لیکن افسوس ان کٹوں کی لمبی لمبی رسیوں کے بارے میں نہ پہلے کبھی ہم نے سوچااورنہ آج ہم اس بارے میں سوچنے کی کوئی زحمت گواراکررہے ہیں۔ ہمارے وسائل کہاں خرچ ہورہے ہیں۔؟یاغریب عوام کی خون پسینے کی کمائی کہاں جاتی ہے۔؟ اس کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں۔ہمیں بس یہ ایک بات یادکرائی گئی ہے کہ ہماری بھینس میں دودھ نہیں۔کاش اس زمیندارکی طرح ہمیں بھی کوئی ایک سائیں ملتا توہماری آنکھیں کھل جاتیں کہ اصل ماجرا کیا ہے۔؟ اور خرابی کہاں پرہے۔ ہمارے ایک چھوٹے سے خادم سے لیکرحاکم تک سارے اس ملک کودیمک کی طرح چاٹنے اورکاٹنے میں لگے ہوئے ہیں مگرہمیں ان کی لمبی لمبی رسیاں نظرنہیں آرہیں۔ باقی محکموں اور اداروں کے توکھاتے ہی حساب سے باہر ہیں۔ صرف ہمارے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی، وزیر، مشیر اور قائمہ کمیٹیوں کے شہزادے اس ملک کوکس طرح چاٹ رہے ہیں یہ حقیقت ہی اگرہم جان جائیں توہمیں اس زمیندارکی طرح پھرکسی ڈاکٹر، کسی حکیم اورقصائی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اس ملک میں تو غریبوں کے لئے دووقت کی روٹی بھی نہیں لیکن ساری زندگی ملکی خزانے کو چاٹنے اور اپنی عیاشیوں پراڑانے والے بیس بائیس گریڈ کے افسران ریٹائرمنٹ کے بعدبھی قبرمیں اترنے تک لاکھوں کی تنخواہیں بطورپنشن اورہرقسم کے مراعات لیتے رہتے ہیں۔غریبوں کوخشک روٹی دینے کے لئے تو خزانے میں پیسے نہیں ہوتے لیکن امیروں اورکبیروں کے لئے پیسوں اورفنڈکاکبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔یقین نہ آئے توبڑے بڑے افسران،ممبران اسمبلی ،وزیروں اورمشیروں کی فائلیں چیک کرکے دیکھ لیں۔ان مگرمچھوں کی تنخواہوں میں اضافے اورمراعات بڑھانے کے لئے ایک دن سمری تیاراوردوسرے دن منظور ہوجاتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بیس تیس ہزارروپے لینے والے وہ غریب ملازم جن کی زندگی کا دارومدار ہی اس تنخواہ پرہوتا ہے وہ جب بھی تنخواہ یامراعات میں اضافے کی بات کرتے ہیں توان کیلئے پھر خزانے میں کچھ نہیں ہوتا۔یہی معاملہ غریب عوام کے ساتھ بھی ہے۔غریب جب مہنگائی ،غربت اور بیروزگاری کاروناروتے ہیں توہمارے حکمران دیہاتی ماسی کی طرح سر پکڑ کر رونا، دھونا اور پیٹنا شروع کردیتے ہیں کہ ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔بڑی مشکل سے نظام چل رہاہے۔ ہمارے پاس عوام کودینے کے لئے کچھ نہیں۔اس کے مقابلے میں جب وزیر،مشیراورافسران قومی خزانے کوبائولے کتے کی طرح کاٹتے اورچاٹتے ہیں تواس وقت ان حکمرانوں کونہ سرپکڑنایادرہتاہے اورنہ ہی رونا،دھونا اور چیخنے چلانا۔جس ملک کے افسران، ججز اور سیاستدان ریٹائرمنٹ ومرنے کے بعدبھی قومی خزانے کو باپ کی جاگیرسمجھ کرچاٹتے رہیں۔بھلاوہ ملک پھرکیسے ترقی کرے گا۔؟جس ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہ ہو۔جہاں غریب کوایک وقت کاکھانابھی مشکل سے ملتاہو۔جہاں غریبوں کی اکثریت کھلے آسمان تلے یاپھرقیام پاکستان سے پہلے کی جھونپڑیوں میں شب وروزگزاررہی ہو۔ جہاں غریب کے بچے سکول جانے کے بجائے صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے شاپروتھیلے اٹھائے کچرے کے ڈھیر ڈھونڈتے ہوں۔ جہاں کے عوام علاج کی سکت وطاقت نہ رکھنے کی وجہ سے ایڑھیاں رگڑرگڑکرموت کے منہ میں جارہے ہوں۔جہاں غریب مائیں فقروفاقوں کی وجہ سے اپنے پھول جیسے بچوں کولوریاں،قصے اور کہانیاں سناکربھوکے سلانے پرمجبورہوں۔کیاوہاں ایک افسر،ایک نوکراورایک خادم کاہزاروں نہیں لاکھوں میں تنخواہیں لینے کاکوئی تک بنتاہے۔؟اس ملک میں ایسے کتنے محکمے ہیں جن کے موٹوپتلونما نکمے،نالائق اورنااہل افسرلاکھوں میں تنخواہیں نہیں لے رہے۔؟غریب قبرکی پاتال میں اترنے تک لاکھ روپے کی شکل نہیں دیکھتالیکن یہاں بڑے بڑے پیٹ والے ایک دونہیں ہزاروں اژدھے صرف ایک مہینے میں لاکھوں کی تنخواہیں لیتے ہیں۔ اتنا ظلم اور کفر تو امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، سعودی عرب اور دیگرترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں ہوتا ہو گا جتنا یہاں ہوتا ہے۔ یہ اگرغریب ملک ہے تو پھر یہاں کے حکمرانوں، وزیروں، مشیروں اور افسران کو بھی غریبی کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ یہ ملک بڑے بڑے مگرمچھوں اورسانڈوں کولاکھوں کی تنخواہیں اور بھاری مراعات دینے کا ہرگز متحمل نہیں۔ بیس تیس ہزارمیں زندگی گزارنا اگر غریب پر فرض ہے تو یہ پھران قومی مجرموں پرواجب کیوں نہیں۔؟ بہت ہو گیا۔ اب یہ کھیل اورڈرامے بندہونے چاہئیں۔ ہمیں ملک کوغربت کی لاش کے طورپرپیش کرتے ہوئے اس پررونے، دھونے، چیخنے اورچلانے کے بجائے اب اپنے ان ’’کٹوں‘‘ کا کچھ بندوبست کرنا چاہئے۔ ان کی یہ رسیاں اگراسی طرح لمبی رہی یا یہ اسی طرح کھلے رہے تو پھر اس زمیندارکی طرح ہمارے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔ کیونکہ سارا دودھ تو پہلے ہی یہ کٹے چنگ جاتے ہیں۔