ایک اصطلاح جس نے اکیسویں صدی کے آغاز سے دنیا میں (بشمول چند مزید اصطلاحات کے) تہلکہ مچائے رکھا، وہ تھی ’آزادیئ اظہار‘۔ فتنہئ دجال کے اہم ترین سنگِ میل میں سے ایک افغانستان پر پوری دنیا کا مل کر فوجیں لیے ٹوٹ پڑنا تھا، جسے بجا طور پر بش نے ’صلیبی جنگ‘ سے معنون کیا تھا۔ 1095ء سے شروع ہونے والی نو صلیبی جنگوں کا بظاہر اختتام 1492ء میں ہوا۔ تاہم اس کے پس پردہ مقاصد، اہداف اور بغض مسلسل جوں کا توں رہا۔ توہین رسالت صلیبی جنگوں کا جزوِ لاینفک رہا ہے۔ اسلام کی روح پر یہ حملہ جب فرانسیسی صلیبی ریجی نالڈ نے کیا تو صلاح الدین ایوبیؒ نے اسے اپنے ہاتھ سے قتل کیا یہ کہہ کر کہ: ’میں ہوں جو تمہارے مقابلے پر ناموسِ رسالت کا دفاع کروں گا۔‘
اسلام کی پوری تاریخ میں شانِ رسالتؐ کی طرف میلی نگاہ سے دیکھنے والوں کے لیے یہی ایک جواب رہا ہے، یہودی کعب بن اشرف سے لے کر سلمان رشدی تک۔ حالیہ عالمی جنگ میں بھی۔ (جو اصلاً خلیجی جنگ سے شروع ہوئی تھی۔) ڈنمارک (2005ء) نے اخبار جیلنڈرز پوسٹن میں گستاخانہ خاکوں سے جو طرح ڈالی تو وہ پورے یورپ میں خنزیری وبا بن کر پھیل گئی۔ باربار یوں دوہرائی گئی آزادیئ اظہار کے نام پر جس نے پوری دنیا کے مسلمانوں کی روحوں کو لہولہان کر دیا۔ سویڈن، فرانس (بدترین مرکز رہا) امریکا تک سے باربار یہ عمل سامنے آتا رہا۔ قبل ازیں 1988ء میں سلمان رشدی (بھارتی بزنس مین انیس رشدی کا مرتد بیٹا) گستاخی کی انتہاؤں پر براجمان، ’شیطانی آیات‘ نامی کتاب لکھ چکا تھا۔ تسلیمہ نسرین کی یاوہ گوئی اور دریدہ دہنی پر مبنی کتب اسے اپنے ملک بنگلادیش سے منہ چھپاکر بھاگنے پر مجبور کر چکی۔ ایسے تمام افراد مغربی ممالک میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ ان پر عالمی ایوارڈ نچھاور کیے جاتے ہیں۔ عظیم ادیب قرار دیے جاتے ہیں۔ ملعونہ تسلیمہ نسرین پر 26 عالمی اعلیٰ ترین ایوارڈز اور اعزازی شہریتیں مغرب نے برسائیں! عورت ہونے کی بنا پر زیادہ ناز اٹھائے گئے۔ اسلام کے پرخچے اڑانے کے عوض۔ سلمان رشدی کو 8 اعلیٰ ایوارڈ یورپی امریکی یونیورسٹیوں اور اداروں نے دریدہ دہنی پر دیے۔ ملکہ برطانیہ نے نائٹ ہڈ سے نوازا، ادب کی بدترین بے ادبی کے عوض! برطانوی ایمپائر کا منصب دار! برطانیہ جو حال ہی میں لیڈی ڈیانا کے بیٹے پرنس ہیری کو ان کی درخواست پر دو دن کے لیے چار سپاہی سیکورٹی پر مامور کرنے کو راضی نہ ہوا، اس نے سلمان رشدی کو پانی کی طرح (برطانوی عوام کے ٹیکسوں کا) پیسہ بہاکر تحفظ فراہم کیا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کا غیظ وغضب لاوا بن کر پھوٹا۔ فتوے جاری ہوئے۔ سر کی قیمت لگائی گئی۔ 6 ماہ میں سلمان رشدی نے 56 مرتبہ جگہیں بدلیں۔ نام بدلا، جوزف رکھ لیا! اولاد بھی نہ جانتی تھی کہ باپ کہاں ہے۔
ایک طرف دنیا بھر کے مسلمانوں کا غم وغصہ تھا، دوسری طرف دنیائے مغرب کی آنکھوں کا تارا بنا چھپ چھپ کر جیتا، خبثِ باطن مزید اگلتا رہا۔ اس پر زندگی حرام ہوچکی تھی۔ برطانیہ کے پاؤنڈ ختم ہونے کو آ گئے تو اس بوجھ کو امریکا کے حوالے کردیا گیا۔ جہاں وہ گزشتہ 20 سال سے زیر زمین پناہ گاہوں میں رہتا، امریکی شہریت پا چکا تھا۔ 1998ء میں اس پر حملے کی کوشش میں بم نصب کرنے والا لبنانی مصطفی مازے خود جاں بحق ہوگیا۔ زیر زمین دبی گھٹی، خوف میں ڈوبی زندگی گزارنے والے رشدی نے چار مرتبہ (یکے بعد دیگرے) شادیاں کیں، غیرمسلم عورتوں سے۔ آخری شادی امریکی ماڈل سے کی۔ سبھی طلاق پر منتج ہوئیں۔ بعدازاں اب
گرل فرینڈز کے سہارے جی رہا تھا۔ رشدی شدید حفاظتی حصار میں خود تو بچا رہا مگر اس کی ہفوات کے تراجم کرنے والوں کی سخت شامت آئی۔ جاپانی میں ترجمہ کرنے والا ہٹوشی، ٹوکیو کی ایک یونیورسٹی میں چھروں سے مضروب مرا ہوا پایا گیا (1999ء)۔ اطالوی زبان میں ترجمہ کرنے والے ایٹور پرمیلان میں حملہ ہوا، بال بال بچ گیا۔ ناروے میں 1993ء میں جس پبلشر نے ناول چھاپا، اسے 3 گولیاں مار کر حملہ آور گھر میں مرنے کے لیے چھوڑ گیا۔ کئی مہینے ہسپتال میں زیر علاج رہا۔ اب بالآخر اللہ کے حکم سے خود سلمان رشدی کی باری بھی آگئی۔
اگرچہ شاتمانِ رسول کبھی دریدہ دہنی کے بعد ایک دن بھی قرار نہ پا سکے۔ ابولہب کی یہ ذریت اپنے انجام کو جلد یا بدیر پہنچ کر رہتی ہے۔ سو یہی ہوا۔ 12 اگست، صبح پونے گیارہ بجے سلمان رشدی نیویارک اسٹیٹ میں ایک لیکچر دینے کو اسٹیج پر تھا کہ اس پر ایک 24 سالہ لبنانی نوجوان ہادی مطر بجلی کی سرعت سے اچانک ٹوٹ پڑا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کی تقریر کا موضوع یہی تھا۔ خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہ ’امریکا اس جیسے لکھاریوں کے لیے پناہ گاہ اور جائے امان ہے۔‘ حملہ آور نے 20 سیکنڈ کے اندر اسے 10,15 شدید گھونسے، چاقو کے وار برسا دیے۔ وہ شدید غضب کے عالم میں تھا۔ طاقتور اتنا کہ پانچ مردوں نے بمشکل قابو پایا۔ (باکسر ہے!) زیر ہونے سے پہلے وہ رشدی کو زیادہ سے زیادہ زخمی کرنے کے درپے تھا۔ سر اور گردن، پیٹ اور بازو پر وار پڑے۔ 75 سالہ رشدی کا خون امڈ رہا تھا۔ اگرچہ کچھ لوگ اسٹیج کی طرف دوڑے۔ مگر ہیبت زدگی کا سماں تھا۔ رشدی کو فوراً ہیلی کاپٹر سے اسپتال منتقل کیا گیا۔ سہمے ہوئے لوگوں اور ان کے رہنماؤں نے اسے ’بزدلانہ‘ حملہ قرار دیا! چھرا مسلسل دائیں طرف مارا گیا۔ اس سے ایک آنکھ میں گہرا زخم آیا جس کی بینائی کھوکر ’ممسوح العین‘ دجال کی طرح کانا ہو جائے گا۔ دایاں بازو (کیونکہ حملہ دائیں طرف کرتا رہا۔ ناکارہ ہوگیا ہے، اعصاب کٹ جانے کی بنا پر۔) بیٹے نے کہا، محض چند لفظ بول سکتا ہے۔ امت کا جگر پاش کرنے والے کا چاقو کی ضربوں سے جگر بھی مضروب ہے۔ کئی آپریشن ہوئے۔ اس کے دوست آتش تاثیر نے ’خوشخبری‘ دی کہ وہ بہتر ہو رہا ہے۔ وینٹی لیٹر اتر گیا ہے۔ بات کر رہا ہے۔ کتنی اور کیسی بات؟ گونگے کی رمزیں گونگے کا دوست جانے! آتش تاثیر خود بھی تو گورنر سلمان تاثیر کا اپنی سکھ ’گرل فرینڈ‘ سے بیٹا ہے جو خود ہندو ہے۔ برطانوی، امریکی مصنف کے طور پر جانا جاتا ہے۔ شہریت امریکی ہے۔ تاہم رشدی کے ایجنٹ اینڈریو کا کہنا ہے کہ ’زخم شدید اور گہرے ہیں۔ بیٹے ظفر رشدی نے کہا کہ ’وینٹی لیٹر اتر گیا ہے مگر حالت نازک ہےCritical))۔ زندگی بدل دینے والے زخم آئے ہیں۔ ’اور ہمارا حکم بس! ایک ہی حکم ہوتا ہے اور پلک جھپکتے میں وہ عمل میں آ جاتا ہے…… پھر ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟‘ (القمر: 50-51)
سادگی ان کی دیکھ، اور ان کی عیاری بھی دیکھ! کہنے لگے ابھی تک حملے کا مقصدہم نہیں جانتے۔ سلمان رشدی کا تو رواں رواں جانتا ہے۔ بول سکے تو پوچھ لو! ’شیطانی آیات‘ ایسی کتاب تھی جس کا صرف ایک صفحہ ہماری قومی اسمبلی کے ڈیسک پر رکھا دیکھا تھا۔ سر تا پا غم وغصے کا طوفان ابل پڑا تھا۔ یہ ’اظہاریہ‘ راکھ کر دینے کے لائق تھا جسے بدتہذیب دنیا نے ادب کا شاہکار قرار دیا۔ ملعون رشدی کی ’شیطانی آیات‘ پر ابھی تو سزا کا ایک ہلکا سا تازیانہ برسا ہے جس نے حلیہ بگاڑ دیا۔ بہت کچھ ابھی باقی ہے!
جہاں لیکچرد ینا تھا وہاں ذمہ داران نے اضافی سیکورٹی اقدامات کو غیرضروری جانا۔ اتنے سال گزر جانے پر اب یہ سب پراعتماد ہو چلے تھے۔ اصلاً جب تقدیر آتی ہے تو عقل اپنی کرسی چھوڑ دیتی ہے، تقدیر کی کارفرمائی کے لیے۔ سو فیصلے کرنے والی ذات باری تعالیٰ وقت مقررہ پر جس سے چاہے جیسے چاہے کام لے لے۔ فعال لما یرید۔ کرتا ہے جو کچھ کہ وہ چاہتا ہے! منتظمین نے تو صرف یہ چاہا تھا کہ کیوں شاتم وشائق میں حائل رہیں پردے، مردانِ سیکورٹی کو سیکورٹی سے ہٹا دو! بس پردہ ہٹنے کی دیر تھی قیامت بحکمِ ربی ٹوٹ پڑی! باہر امریکی جھنڈا لہراتا رہ گیا۔ جس پرچم کے سائے تلے سب ایک تھے! اب اس کے چاہنے والے عالمی محافظینِ شاتمان غمزدہ ٹوئٹس کرکے عزائم کو بیدار کر رہے اور دعائیں اس پر نچھاور کر رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا: ’یہ ہماری آزادی اور اقدار پر حملہ ہے۔ اسرائیل کے عوام کی طرف سے صحت کاملہ، عاجلہ کے تمنائی ہیں۔‘ برطانیہ سے لیبر لیڈر نے کہا ’ساری لیبر پارٹی اس کی مکمل صحت یابی کے لیے دعا کر رہی ہے۔‘ اگرچہ رشدی کھلم کھلا ملحد ہے۔ دعا کس سے کر رہے ہیں یہ؟ بہرصورت شیرون کی طرح یہ بھی عیسائی یہودی ہندوؤں کی دعاؤں تلے اسپتال کے بستر پر ہے۔ اللھم صل علی محمدؐ۔ باقی رہے نام اللہ کا!
15 اگست کو امریکا نیٹو ودیگر دنیا کی افغانستان میں شکست کی برسی ہونے سے تین دن پہلے ہادی نے یہ سلامی پیش کی ہے۔ اللہ اس کے ایمان کے نور کو مکمل اور اجر عظیم سے نوازے اپنے لیے خالص کرکے۔ (آمین) رشدی کے عالمی سرپرست بائیڈن، جانسن، ٹروڈ وغم میں ڈوبے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ وعدہ بھی یہی ہے۔ جن سے محبت رکھو گے تم انہی کے ساتھ ہوگے! مسلم دنیا خاموش کیوں ہے؟ ؎
تازہ مرے ضمیر میں معرکہئ کہن ہوا
عشق تمام مصطفیؐ، عقل تمام بولہب