کئی روز سے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر کسی شہباز گل نامی شخص کا بہت تذکرہ ہے۔ تحقیق کی تو پتہ چلا کہ موصوف پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین جناب عمران خان کے چیف آف سٹاف ہیں لیکن ان کی اصل وجہ شہرت ان کی بدتمیزی، بدتہذیبی، بدزبانی اور بدلحاظی ہے اور یہ آج کل ملک کے دفاعی اداروں میں تفرقہ پیدا کرنے کے الزام میں گرفتار ہیں اور ہسپتال، حوالات اور جیل کے درمیان کھجل خوار ہوتے پھر رہے ہیں۔
میڈیا کے باخبر دوستوں،کچھ عوام اور عوامی نمائندوں اور چند سرکاری افسران سے اس شہباز گل نامی شخص اور اس پر درج مقدمہ کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ معاملہ تو کافی سیریس نوعیت کا ہے اور ابتدائی تفتیش کے بعد مزید کافی لوگوں کے اس کی لپیٹ میں آنے کے امکانات بھی موجود ہیں جن میں چند اہم شخصیات بھی شامل ہیں۔
تھانہ کوہسار اسلام آبادمیں درج مقدمہ میں گرفتاری کے بعد ایک دو دن تک تو گل صاحب کی پارٹی(پی ٹی آئی) نے ان کے ساتھ لاتعلقی ہی بنائے رکھی اور موقف اپنایا کہ اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی شہباز گل کی ذاتی رائے ہے اور پارٹی کی سوچ اور گائیڈ لائین کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ حتیٰ کہ ابتدائی ریمانڈ کے دوران نہ تو پارٹی کی طرف سے کسی نے ان کے حق میں بیان دیا اور نہ ہی کوئی ان سے ملاقات کے لیے پولیس سٹیشن گیا۔
ذرائع کہتے ہیں کہ شہباز گل کی باتوں کو ان کی ذاتی رائے قرار دینا بالکل بھی درست نہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی ہے کہ اداروں کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کے لیے پارٹی کو باقاعدہ طور پر گائیڈ لائین دی گئی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جب عمران خان صاحب کو اطلاع دی گئی ہے کہ پولیس حراست کے دوران شہباز گل ممکنہ طور پر کچھ ایسا بیان بھی ریکارڈ کروا سکتے ہیں جو ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اسی لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کو پریشر میں لانے کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ فوری طور پر احتجاجی پرگرام ترتیب دیے جائیں۔ اس کے علاوہ حفظ ماتقدم کے طور پر شہباز گل سے (1) لاتعلقی کی پالیسی پر نظر ثانی کرنے اور 2) (ان پر ذہنی اور جسمانی تشدد کیے جانے اور ان سے زبردستی بیان لینے کے الزامات لگانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
کسی دوست نے اسی شہباز گل نامی شخص کے متعلق بتایا کہ موصوف صرف بد تمیز، بدتہذیب، بڑھک باز اورمنفی طرز کی طنزیہ باتیں کرنے والے کردار ہی نہیں بلکہ اچھے خاصے ایکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی چند ہفتے قبل یہ ایک ٹریفک حادثہ کا شکار ہو گئے تھے۔ حادثہ کے فوراً بعد موقع پر بنائی جانے والی ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ بھلے چنگے سڑک کے کنارے کھڑے منرل واٹر کی بوتل منہ کو لگائے پانی پی رہے ہیں لیکن بعد ازاں ایک نظرثانی شدہ پالیسی کے تحت حکومت کو اس حادثہ کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے یہ تاثر دیا گیا کہ وہ جس حادثہ کا شکار ہوئے اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ حادثہ کے بعد بالکل فٹ نظر آنے والے شہباز گل اچانک ہی شدید زخمی ہونے کا تاثر دینے لگے۔ انہوں نے گلے میں ایک پٹہ سا پہن لیا، ایک بازو پر پلستر چڑھا لیا اور دوسرے میں سٹک پکڑ لی۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ایک دو روز میں ہی یہ سب لوازمات رفع ہو گئے اور وہ بدزبانی کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر سے سرگرم ہو گئے۔
شہباز گل کیس میں گزشتہ دو روز کی کاروائیاں بھی دلچسپی سے بھر پور رہیں۔ سب سے پہلے تو گرفتاری کے بعد بیمار ہو جانے پر دوسروں کا مذاق اڑانے والے دو ہی دن کے جسمانی ریمانڈ کے بعد اس قدر علیل ہو گئے کہ انہیں ہسپتال منتقل کر کے آکسیجن لگانی پڑی، پھر جب قانون کے مطابق انہیں مزید ریمانڈ کے حصول کے لیے عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے نہ صرف یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ شدید بیمار ہیں بلکہ عدالت کے باہر میڈیا کے سامنے باقاعدہ رونا دھونا شروع کر دیا۔ خیر یہ ساری پلاننگ کامیاب رہی اور گل صاحب کے مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست دو دن کے لیے موخر کر کے انہیں دوبارہ ہسپتال بھیج دیا گیا۔
شہباز گل کیس میں پنجاب حکومت اور پی ٹی آئی چیرمین عمران خان کا کردار بھی ریاستی اداروں کو امتحان میں ڈال رہا ہے۔
پہلے توعدالت سے دوسری مرتبہ ریمانڈ منظور ہونے کے بعد جب اسلام آباد پولیس شہباز گل کو لینے اڈیالہ جیل پہنچی تو جیل حکام نے اعلیٰ سیاسی قیادت کے حکم پر قیدی کی حوالگی سے انکار کر دیا۔ اس طرح نہ صرف عدالتی حکم کو ہوا میں اڑا دیا گیا بلکہ ریاستی اداروں کو بھی آمنے سامنے لا کھڑا کیا گیا۔
ابھی یہ مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہو پایا تھا کہ عمران خان صاحب جو شہباز گل کے بیان سے تقریباً لاتعلقی کا اعلان کر چکے تھے، اچانک ایکشن میں آ گئے۔ شہباز گل کی محبت نے اچانک ان کے دل میں ایسا جوش مارا کہ وہ تمام ایس او پیز کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بڑے جتھے کے ہمراہ پمز ہسپتال جا پہنچے۔ اگرچہ انتظامیہ نے انہیں شہباز گل سے ملاقات کی اجازت تو نہ دی لیکن خان صاحب کے حواریوں نے اس موقع پر خوب ہلڑ بازی کی۔
ہسپتال کی ناکام یاترا کے بعد اپنے ایک سوشل میڈیا پیغام میں خان صاحب نے ایک نیا ہی کٹا کھول دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ دوران حراست پولیس کی جانب سے نہ صرف شہباز گل پر جسمانی تشدد کیا گیاہے بلکہ انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔
مجھے پورا یقین ہے کہ باقی الزامات کی طرح مسٹر خان کا یہ الزام بھی بہتان ہی ثابت ہو گا لیکن پھر بھی یہ ایک انتہائی سنگین الزام ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس الزام کی اعلیٰ ترین سطح پر تحقیقات کروائے اور اگر یہ الزام درست ثابت ہوتا ہے تو ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جائے۔لیکن اگر جھوٹ ثابت ہوتا ہے تو اداروں پر الزام تراشی کرنے پر خان صاحب کے خلاف بھی بھر پور قانونی کاروائی ہونی چاہیے۔
اس وقت تو شہباز گل واقعی ایک مظلوم کردار نظر آ رہا ہے۔ ریاست تو اس کے خلاف بھرپور طریقے سے قانونی کارروائی کرنے کے موڈ میں تھی ہی لیکن اس موقع پر عمران خان صاحب جیسے’مہربان‘ نے انٹری ڈال کر بیڑہ ہی غرق کر دیا ہے۔ شہباز گل کے حوالہ سے پولیس پر الزامات جانے کس نیت سے لگائے ہوں گے لیکن ہم جس قسم کے معاشرے میں رہتے ہیں اس میں اس قسم کے الزامات درست ثابت ہوں یا غلط یہ بعد کی بات ہے لیکن یہ طے ہے کہ فی الحال شہباز گل کی عزت کا فالودہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
عمران خان اور ریاست بمقابلہ شہباز گل!!!!
09:01 AM, 21 Aug, 2022