آپ یہ تو مانتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے سخت ترین مخالفین بھی اُنہیں کرپٹ نہیں کہتے۔ ہاں، وہ یہ ضرور اور تواتر سے کہتے ہیں کہ وہ ایک نا اہل وزیر اعظم ہیں۔اُن کے مخالفین یہ بھی کہتے ہیں کہ اُنہیں کرپشن کی کیا ضرورت ہے، اُنہوں نے اپنے ارد گرد اے ٹی ایمز(ATMs) رکھی ہوئی ہیں اور جہاں بھی خرچ کرنے کے مواقع آتے ہیں، ان کی اے ٹی ایمز اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتی ہیں۔نہ جانے لوگوں کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں لگتی کہ عمران خان بنیادی طور پر ایک سیلیبرٹی (celebrity) ہیں اور بعد میں سیاستدان۔یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ سیلیبرٹیز (celebrities) کے ارد گرد اے ٹی ایمز (ATMs) گھومتی رہتی ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انڈین اداکاراؤں ریکھا اور زینت امان کے ارد گر د اے ٹی ایمز نہیں گھومتی تھیں۔ کیا آجکل کے دور میں مہوش حیات اور ریشم کے ارد گرد اے ٹی ایمز نہیں گھومتیں۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے ارد گرد اے ٹی ایمزکا گھومنا کوئی اتنا غیر فطری عمل نہیں۔لیکن جو بات مجھے سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ وزیراعظم کے اپنے صوبہ یعنی پنجاب میں جاری کر پشن کا تذکرہ ہر سُو چل رہا ہوتا ہے اور اب تو لوگ کہتے ہیں کہ پنجاب کے کسی محکمہ کو لے لیں، چھوٹے دفتر سے لیکر سب سے اونچے دفتر تک میں کرپشن کھلے عام جاری ہے۔ لوگ عجیب سی حیرانگی میں مبتلا ہیں کہ جب اس صوبے میں رہنے والے ہر آدمی کو معلوم ہے کہ حکومتی محکموں میں کرپشن عام ہے تو کیا اس بات کا علم وزیراعظم کو نہیں ہے۔ کیا وہ اتنے بے خبر ہیں!۔ کیا سرکاری ایجنسیاں صوبہ پنجاب میں کھلے عام جاری کرپشن کے قصے وزیراعظم کے نوٹس میں نہیں لاتیں اور اگر لاتی ہیں تو کیوں وزیراعظم اس باعث بدنامی حکومتی کارکردگی پر خاموشی اختیار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ آج کے دور میں انسانی زندگی کے تناظر میں ماحولیات کی اہمیت سے کون آشنا نہیں۔ ماحولیات کے امور سے متعلقہ حکومت پنجاب کا محکمہ تحفظ ماحولیات ہے۔پنجاب میں اگر کسی لوکل یا ملٹی نیشنل نے کوئی فیکٹری یا پراجیکٹ لگانا ہو تو اس کی بنیادی ضرورت اس محکمہ سے اس بات کا سرٹیفکیٹ لینا ہوتا ہے کہ اس فیکٹری یا پراجیکٹ کی وجہ سے اس علاقہ کے ماحول پر کوئی منفی اثرات نہیں پڑیں گے۔ لیکن بد قسمتی دیکھیں اس ملک کے باسیوں کی کہ اس محکمے کے چھوٹے بڑے ملازمین اور افسران بغیر کسی بنیادی جانچ پڑتال کے اور جعلی و خود ساختہ رپورٹس کی بنیادوں پر بڑی بڑی رقوم لیکر یہ این او سی (NOC) جاری کیے جا رہے تھے۔اس بے ضابطگی اور نہایت ظالمانہ و غیرذمہ دارانہ کارکردگی کا علم ہونے پر اس محکمہ کے سیکریٹری زاہد حسین نے یہ کیس بمع مکمل تفصیلات و ریکارڈ حکومت پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل انٹی کرپشن پنجاب کو برائے انضباتی کارروائی بھیج دیا ہے۔نہ جانے اب اس کا کیا ہوتا ہے۔ لوگ تو کہتے ہیں کہ پنجاب میں موجود مافیا کہیں سیکریٹر ی ماحولیات ہی کو کھڈے لائن نہ لگوا دے۔ہمارے وزیراعظم کی باتوں اور تقریروں سے تو یوں لگتا ہے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کے متعلق بہت حساس ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کچھ خبر نہیں کہ پنجاب کے اس اہم محکمہ میں کتنی کرپشن ہو رہی ہے۔آپ کو تو معلوم ہی ہو گا کہ اپنا لاہور دنیا کے پہلے پانچ آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔اب ذرا غور کریں حکومت پنجاب کے ایک اور اہم محکمہ کی کارکردگی پر، یہ ہے حکومت پنجاب کا محکمہ اطلاعات۔ اس محکمہ کا ایک ادارہ ہے ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز((Directorate of public relations جس کی سربراہی ڈائریکٹر جنرل کے پاس ہوتی ہے۔اس ڈائریکٹوریٹ نے ایک نیا طریقہ ایجاد کر رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت پنجاب کا کوئی محکمہ یا کوئی ادارہ جس نے بھی کسی قسم کا اشتہار صوبہ پنجاب کے اخبارات میں چھپوانا ہو تو وہ یہ اشتہار تیار کرکے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کے دفتر بھجوائے گا، آگے پھر اس ڈائریکٹوریٹ کا کام ہے کہ وہ یہ اشتہار چھاپنے کے لیے پنجاب کے کس اخبار پر عنایت کرے۔اب اس اجارہ داری پر ذرا غور کریں۔ اشتہار محکمہ لائیوسٹاک کا یا محکمہ انہار کا یا ہیلتھ کا لیکن اس اشتہار کو کونسا اخبار چھاپے گا یہ فیصلہ ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کریں گے۔ جب انھوں نے اس مقصد کے لیے پنجاب کے مختلف اخبارات کو کوالیفائی (qualify) کر رکھا ہے تو یہ اشتہار کس اخبار کو دینا ہے یہ اختیار اشتہار دینے والے محکمے کے پاس رہنے دیں۔ اب ایک اور طرفہ اور اصلی کارکردگی دیکھیں کہ جب اخبار کا بل آئیگا تو متعلقہ محکمہ نے اشتہار چھاپنے کی رقم بھی ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز صاحب کے دفتر ہی بھجوانی ہے۔اب ذرا آپ خود سوچیں کہ اس نامنا سب اجارہ داری کا مقصد کیا ہے۔ کیا یہ محکموں کے بجٹ کا استحصال نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ لوگ تو صاف کہتے ہیں کہ اس طریقہ سے لاکھوں روپے ہر مہینہ بنائے جا رہے ہیں جو نہ جانے کس کس کی جیب میں جا رہے ہیں۔ ہمارے دیانت دار وزیراعظم اس پر بھی ایک انکوائری کمشن قائم کریں تاکہ حقیقت سے آگاہی ہو اورپھر مناسب فیصلہ ہو۔انگلش کا ایک محاورہ ہے Last but not the least۔ اب جب سرکاری محکموں کی کرپشن کا ذکر چل ہی نکلا ہے تو حکومت پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کا ذکر نہ کرنا بھی ایک قسم کی زیادتی ہو گی۔ یہ ایک رائل ڈیپارٹمنٹ ہے جسکی ایک لمبی تاریخ ہے۔ بزرگ کہتے ہیں اللہ آپ کو جیل نہ دکھائے۔اگرچہ جیلوں میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہوں نے انسانیت کے ساتھ ظلم کیا ہوتا ہے۔ میں نے کئی اچھے اچھے خاندانوں کو اُجڑتے دیکھا ہے جن کے پیارے جیلوں میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔چونکہ یہ ایک بہت ہی پرانا محکمہ ہے اس لیے اس کا ایک طے شدہ نظام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس محکمہ میں منتھلی کا ایک نظام بھی طے شدہ ہے۔ یہ جیل سپرنٹنڈنٹ سے شروع ہوتی ہے اور اعلیٰ ترین سطح تک چلی جاتی ہے۔اس لیے لوگ کہتے ہیں کہ اس کی وزارت بھی طاقت کے سر چشمہ کے بہت قریبی لوگوں کو ملتی ہے۔وزیر اعظم عمران خان کی باتوں سے لگتا ہے کہ انہیں اس محکمہ کے حالات سے تھوڑی بہت آگاہی ہے۔بہر طور حالات کو صحیح تناظر میں دیکھنے کے لیے انھیں سول اور فوج کے انٹیلی جنس اداروں پرمشتمل افسران کی ایک کمیٹی بنانی چاہیے جو کارکردگی کا تفصیلاً جائزہ لے اور اس میں جاری بری روایات کو سامنے لائے۔ اور پھر حالات کی بہتری کی کوئی راہ نکالی جائے۔ ہم پنجاب کے مختلف محکموں کی کارکردگی سامنے لانے کی کوشش کرتے رہیں گے لیکن اس نیت کے ساتھ کہ اس ملک کے محکموں میں کچھ بہتری لانے کی کوشش کی جائے۔