شہباز شریف کو درپیش چیلنجز

شہباز شریف کو درپیش چیلنجز

شہبازشریف کے لیے مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ یہ حکومت کتنے دن چلے گی یہ اتحادیوں کے حوصلے، ظرف اور تحمل مزاجی کا امتحان ہے۔ اس کو کامیاب کرنا ہے تو قربانیاں دینا ہوں گی ورنہ ملک میں آنے والا طوفان بدتمیزی سب کو بہا لے جائے گا۔ عمران خان کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کا نتیجہ انہیں بھگتنا ہو گا۔ جو محلے میں پرچون فروش کے مقروض ہیں وہ امریکہ سے غلامی کی نجات کے نعرے لگا رہے ہیں۔ بس انہیں ایک نعرہ چاہیے تھا وہ انہوں نے لے لیا۔ اب کوئی یہ بات نہیں کر رہا کہ اس کے دور میں مہنگائی عروج پر تھی۔ لوگوں کے لیے مقامی مسائل اتنے زیادہ اہم نہیں ہیں بلکہ وہ بین الاقوامی امور پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ امریکہ کس کس سے دشمنی کر رہا ہے۔ یورپ کیا سوچتا ہے۔ پاکستان کو کن کن ممالک کو ساتھ ملا کر ایک نیا بلاک بنانا چاہیے، لوگوں کے یہ مسائل ہیں۔ بھٹو نے نعرہ لگایا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے اور اب تک ہم گھاس ہی کھا رہے ہیں۔ خودداری کا چورن زیادہ بکتا ہے، سو عمران بیچ رہا ہے۔ اتحادی سمجھ رہے ہیں کہ عمران صرف مسلم لیگ ن کا مسئلہ ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ مسلم لیگ کو نقصان پہنچا تو وہ بھی اس نقصان سے نہیں بچ سکیں گے۔ میں نے پہلے بھی ایک کالم میں عرض کی تھی کہ حکومت جب تک شریر بچوں کا علاج نہیں کرے گی وہ اسے اسی طرح تنگ کرتے رہیں گے۔ جس غبارے میں ہوا بھری جا رہی ہے اس کے لیے ایک چھوٹی سی سوئی کافی ہے۔ 
بے نظیر بھٹو نے جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ لگایا تھا۔ موجودہ حکومت بھی کہہ رہی ہے کہ وہ انتقامی کارروائیوں پر یقین نہیں رکھتی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ تمام معاملات سے آنکھیں بند کر لیں جائیں۔ ماضی کی حکومت نے جو کچھ کیا ہے اس پر صرف نظر کیا جائے۔ آرٹیکل چھ کے نعرے لگ رہے تھے کیا وقت نہیں آگیا کہ وفاقی حکومت اس حوالے سے اپنی کارروائی کا آغاز کرے۔ عمران خان اور اس کے حواری ریاست کے ساتھ مخلص نہیں ہیں اور عمران کی محبت میں ریاستی عہدیداران نے ریاستی مفادات کو بالائے طاق رکھ دیا۔ کیا یہ مذاق نہیں ہے کہ ریاست کا صدر کابینہ سے حلف لینے سے انکار کر دے۔ وفاقی حکومت کی بھیجی گئی سمری پر دستخط نہ کرے۔ گورنر پنجاب وزیراعلیٰ کے انتخاب کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ اگر وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ گھی سیدھی انگلی سے نکل آئے گا تو یہ ان کی بھول ہے۔ گھی نکالنے کے لیے انگلی ٹیڑھی کرنا پڑے گی۔ آئین کو پاؤں تلے روند دیا گیا اور حکومت تماشا دیکھ رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس طاقت ہے وہ اپنی مرضی سے سب کچھ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ تحریک انصاف ذمہ داران کو آوازیں دے رہی ہے کہ جلد از جلد انتخابات کرائے جائیں لیکن جو حالات پیدا ہو رہے ہیں اس میں سسٹم کے اندر موجود تمام ادارے دیکھ رہے ہیں کہ تحریک انصاف جمہوریت کو لے کر چل بھی سکتی ہے یا نہیں۔ اس پارٹی کا مزاج فاشسٹ ہے اور اس سے یہ امید رکھنا ہے کہ وہ جمہوریت کے پھلنے پھولنے کا سبب بنے گی ایک بڑی نادانی ہے۔
حکومت کو آگے بڑھنے کے لیے بڑے فیصلے 
کرنا ہوں گے یا پھر آپ اس فلسفے کو پروان چڑھائیں کہ ایک تھپڑ کھا کر دوسرا گال آگے کر دیا جائے۔ حکومت کی کمزوری کا اثر سامنے آنا شروع ہو گیا ہے اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر مہنگا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ سرمایہ کار سمجھ رہے ہیں کہ حکومت کی کمزوری کی وجہ سے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ جب حکومت کا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہو تو کون سرمایہ کاری کرے گا۔بینکوں کی جانب سے محدود انداز میں ڈالر کی تجارت کی گئی لیکن روپے کے مقابلے میں اسے بڑھنے سے نہیں روکا جا سکا۔کرنسی ڈیلرز کو مقامی کرنسی کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گراوٹ سے بچاؤ کے فوری امکان کی امید نہیں ہے لیکن وہ آئی ایم ایف کے ساتھ تازہ مذاکرات اور وزیر اعظم شہباز شریف کے غیر ملکی دورے سے بہتر نتائج برآمد ہونے کے منتظر ہیں۔ڈر ہے کہ ڈالر مزید بڑھے گا کیونکہ غیریقینی صورتحال بدستور برقرار ہے جو روپے کو مزید کمزور کر سکتی ہے۔کرنسی ڈیلرز پْرامید ہیں کہ چین جلد ہی تقریباً 2 ارب 40 کروڑ ڈالر کے قرضے فراہم کرے گا جبکہ آئی ایم ایف ملک پر اپنا دباؤ کم کر سکتا ہے، اطلاعات کے مطابق نئے وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع کرنے میں مصروف ہیں۔
مصنوعی طریقے سے لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے رمضان ریلیف پیکیج کے تحت عید تک صوبہ پنجاب میں 10 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت550 روپے سے کم کر کے 400 روپے اور فی کلو چینی کی قیمت 75 روپے سے کم کر کے 70 روپے مقرر کرنے کی ہدایت کر دی۔ غربت کا معاملہ صرف پنجاب کا نہیں ہے بلکہ اس پیکیج کو دوسرے صوبوں تک بھی جانا چاہیے تھا تاکہ کہیں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ سب سڈی سے کب تک لوگوں کو خط غربت سے نیچے جانے سے روکا جا سکتا ہے۔ ایسا میکنزم بنانا ہو گا کہ لوگوں کو روزمرہ ضرورت کی اشیاء سستے داموں ملیں اور یہ صرف اسی صورت ہو سکتا ہے جب کسانوں کو مراعات دی جائیں گی۔ ان کی لاگت کو کم کریں گے تو اناج کی قیمتیں نیچے آئیں گی۔
اگرچہ 33 ارکان اسمبلی نے حلف اٹھا لیا ہے لیکن وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے اتحادیوں میں اختلافات موجود ہیں۔ خاص طور پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں اہم وزارتوں کی تقسیم پر بات چیت ہو رہی ہے۔ بلاول بھٹو کا نام وزیرخارجہ کے طور پر سامنے آیا تھا مگر انہوں نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا۔ وہ نوازشریف کے ساتھ ملاقات کے بعد حلف اٹھائیں گے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ مسلم لیگ ن کے اندر بھی وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں اور پارٹی میں مریم نواز شریف کے دھڑے سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار افراد کو کابینہ سے باہر رکھا گیا ہے۔ جاوید لطیف کا نام کابینہ کے لیے سامنے آیا تھا لیکن انہوں نے بھی حلف نہیں اٹھایا۔پی پی پی کی قیادت ارکان اسمبلی کے انتخاب اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، بلوچستان عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی جیسے اتحادیوں کو نظر انداز کیے جانے پر ناراض ہے، جنہیں پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے حکومت میں حصہ داری کی ضمانت دی تھی۔بی این پی نے گزشتہ ہفتے چاغی میں مظاہرین پر سیکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ کے خلاف احتجاجاً کابینہ کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔مبینہ طور پر جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے مخالفت کے سبب اے این پی اور آزاد ایم این اے محسن داوڑ کو وفاقی کابینہ میں جگہ نہیں ملی۔ تاہم چند روز قبل آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمن پر واضح کیا تھا کہ وہ اپوزیشن اتحاد میں ایک ’ضامن‘ ہیں اور انہوں نے اے این پی اور محسن داوڑ سے ایک، ایک وزارت کا وعدہ کیا تھا تاکہ وہ پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت کو گرانے کی کوششوں میں ساتھ دیں۔
شہبازشریف نے کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اتنی زیادہ حلیف جماعتوں کے ساتھ حکومت کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن خلوص نیت سے ہم آگے بڑھیں گے اور پوری توانائیاں عوام کی فلاح و بہبود پر صرف کریں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن حقیقت میں حالات بہت خراب ہیں۔ اتنے زیادہ اتحادیوں کو راضی رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مسلم لیگ ن کے اندر دھڑوں اور اتحادیوں کو شہبازشریف کی مجبوریوں کو سمجھنا چاہیے اور انہیں اپنی مرضی کی ٹیم بنانے کا اختیار دیا جائے تاکہ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ کام کر سکیں اور ان سے رزلٹ حاصل کر سکیں۔ شہبازشریف کی کامیابی سب کی کامیابی ہو گی اور ناکامی کا بوجھ بھی سب کو مل کر اٹھانا ہو گا۔

مصنف کے بارے میں