شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

08:53 AM, 21 Apr, 2022

نیوویب ڈیسک

جب آپ اقتدار میں ہوتے ہیں تو آپ کے منہ سے نکلا ایک ایک لفظ حکم، فرمان اور قانون کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ آپ کے ارد گرد سرکاری اہلکار اور سیاسی حاشیہ نشینی آپ کو سلطنت کا مستحق ترین خدائی فرمانروا قرار دینے میں اتنی کمال کی ذہن سازی کرتے ہیں کہ حکمران یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ قوم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے اس ریاست کو میرے جیسا لیڈر عطا کیا ہے۔ یہ ایک دو تین حکمرانوں کی بات نہیں یہ تاریخ میں سب کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔ 
اس پس منظر میں ہمارے ہاں جب کسی بھی حکمران کے اقتدار کا سورج غروب ہوتا ہے تو اس کے لیے یہ کسی سانحہ سے کم نہیں ہوتا۔ فطری بات ہے کہ آپ آسمان سے یکدم زمین پر گر جاتے ہیں اور آپ کے دشمن خوش ہو رہے ہوتے ہیں۔ جنرل ایوب خان سے شرو ع ہو جائیں پھر بھٹو کے ساتھ بھی یہی ہوا اس کے بعد نواز شریف بے نظیر بھٹو جنرل مشرف یہ سارے لوگ کرسی چھوڑنے کے صدمے سے بڑی مشکل سے جانبر ہوئے۔ اب عمران خان کی باری ہے ان کا دل زخموں سے چور چور ہے۔ اپنوں کی بے وفائی محسنوں کا نظریں پھیر جانا عوام کا رائے بدل لینا بین الاقوامی دوستوں کا انداز بدل جانا یہ سب ان کے لیے خاصا اذیت ناک ہے۔ اس موقع پر یہ سارے لوگ ہمیشہ ایک غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ عوام اب بھی ان کے ساتھ ہے یہی معاملہ عمران خان کا بھی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں اور جتنی جلدی ممکن ہو الیکشن کرا کر انہیں اقتدار کی کرسی پر واپس آنا چاہیے لیکن یہ اتنا ساہ اور آسان نہیں جتنا انہیں نظر آتا ہے۔ حکومتیں جب ٹوٹتی ہیں تو وہ اتنی جلدی واپس نہیں ملتیں دوبارہ اقتدار میں آنے اور اقتدار سے نکلنے کا درمیانی وقفہ طویل ہوتا ہے اور یہ بڑا صبر آزمامرحلہ ہے بقول فیض احمد فیض 
تم ناحق ٹکڑے چن چن کر 
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیوں آس لگائے بیٹھے ہو
ٹوٹے ہوئے شیشے اور ٹوٹی ہوئی حکومتیں اتنی جلدی بحال نہیں ہوتیں اس کے لیے بری محنت کرنا پڑتی ہے اور سنجیدہ مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے البتہ یہ ہے کہ ابھی چونکہ عمران خان کی چوٹ نئی نئی ہے اس لیے تکلیف دے رہی ہے یہ زخم آہستہ آہستہ بھر جائے گا۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ اقتدا رسے ان کی جدائی کی مدت کتنی ہے یہ ان کے اپنے پر بھی منحصر ہے ۔ ایک دفعہ وہ قدرتی طور پر تنہائی کا شکار ہو جائیں گے انہیں تنہا سفر کرنا پڑے گا۔ رات کے اندھیرے میں جنگلوں کا سفر ہے جس میں راستہ بھٹک جانے کا اندیشہ ہر وقت منڈلاتا رہے گا۔ بقول فیض 
تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھی بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
اس لیے ان کے لیے بہتر راستہ یہ ہو گا کہ وہ دشمنوں کی دشمنی اور صرف ملامت کو بھول کر اپنے لیے راستے ہموار کریں قوم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بجائے اپنا ایجنڈا دیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا فن اپنائیں انہوں نے اقتدار میں آ کر سب سے زیادہ توانائیاں مخالفوں کو نیچا دکھانے میں صرف کی ہیں۔ 
سیاست کے میدان کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اقتدار سے محرومی کے بعد لیڈر کو جیل بھی جانا پڑتا ہے یہ سیاست کا ایک اہم جزو ہے۔ فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا ہے کہ 
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پس زنداں کبھی رسوا سر بازار
اس لیے اگر مستقبل قریب میں عمران خان صاحب کو بھی جیل تشریف لے جانا پڑا تو یہ بعید از امکان نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی غیر معمولی واقعہ ہو گا۔ ان کے دور حکومت میں بے پناہ کرپشن کے بے شمار سکینڈل بنے ہیں جن کو دبا دیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں ملک کے بد ترین آئینی و سیاسی بحران میں ان پر آئین توڑنے کا الزام بھی ہے ۔ انہیں خوش ہونا چاہیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کے جلد بازی میں بنائے ہوئے پیکا آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا ہے ورنہ منحرف اراکین پر رشوت کا بلا ثبوت الزام لگانے پر وہ اس اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کی زد میں آجاتے۔ 
عمران خان اس وقت اپنے علاوہ ہر ایک کو شہبا زشریف کو وزیراعظم بنانے کے جرم کا ذمہ دار سمجھتے ہیں حالانکہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کے سب سے بڑے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ جمہوریت کی زبان میں اپوزیشن کو Government in waiting کہا جاتا ہے۔ شہباز شریف بطور لیڈر آف دی اپوزیشن اس لیے وزیراعظم بنے ہیں کیونکہ پہلے والا وزیراعظم اپنی اکثریت کھو بیٹھنے کی وجہ سے حق حکمرانی سے آئینی و اخلاقی طور پر محروم ہو گیا تھا۔ اگر یہ سازش ہے تو یہ سازش آپ کی بچھائی ہوئی ہے۔ آخر کیوں آپ کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اور لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ کی پارٹی میں ایم پی اے، ایم این اے مشیران وزراء اور کابینہ کسی  کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ سارے کے سارے فیصلے آپ خود کرتے تھے ایسا کب تک چل سکتا تھا۔ 
سبکدوش وزیراعظم عمران خان کے لیے ایک پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ اقتدار میں تو ڈلیور نہیں کر سکے البتہ وہ اپوزیشن کرنے کے بڑے ماہر ہیں وہ تقریر کا فن جانتے ہیں دھرنے کے ایکسپرٹ ہیں سڑکیں بلاک کرنے میں ثانی نہیں رکھتے۔ سسٹم سے بغاوت ان کا پسندیدہ کھیل ہے لیکن بغاوت کی کوئی وجہ یا جواز بھی تو ہونا چاہیے۔ انگریزی میں A rebel without a causeکی اصطلاح شوقیہ باغی کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس میں بغاوت کا شوق کچھ لوگوں کو باغی بنا دیتا ہے یہ بے سبب بغاوت قومی سلامتی کے لیے زہر قاتل ہے۔ 

مزیدخبریں