تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہر سطح پر یہ بحث جاری ہے کہ سفینہ کیوں ڈوبا؟ اغیار کی سازش ہے ؟یا گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے؟۔ اس حوالے سے راقم نے بطور ایک طالب علم اور سیاسی کارکن اپنا تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
عمران خان کی شخصیت کا سحر ہر اُس شخص پر رہا ہے جو کرکٹ سے دلچسپی رکھتا ہے۔ راقم بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل تھا ۔ یہ سحر ہی تحریک انصاف میں شمولیت کا باعث بنا تھا۔ بعد میں مختلف سیاسی اور معاشی نظریات کے مطالعے نے اس سحر کا طلسم توڑ ڈالا۔ مگر پھر بھی اُمید موہوم کے ساتھ وابستگی برقرار رہی۔ ایک وقت پر جب تحریک انصاف میں موقع شناس اور بہروپیے شامل ہونے لگے تو یہ موہوم سی اُمید بھی دم توڑ گئی اور یہ کہنا پڑا کہ :
نہیں ضبطِ نوا ممکن تو اُڑ جا اس گلستاں سے
کہ اس محفل سے خوش تر ہے کسی صحرا کی تنہائی
بنیادی طور پر تحریک انصاف کے قیام کا مقصد ایک ایسی عوامی جمہوری انقلابی جماعت قائم کرناتھا جو ملک کے ہر شعبے سے استحصال اور لوٹ مار کا خاتمہ کرکے منصفانہ معیشت پر قائم معاشرہ قائم کر سکے ۔اگرچہ یہاں بھی تضاد تھا کہ ملک کے مسائل کی بنیاد ی جڑ جاگیر داری اور سرمایہ دارانہ نظام کی تحریک انصاف نے کبھی بھی کُھل کر مخالفت نہیں کی تھی ۔ جب کہ یہ حقیقت یہ ہے کہ جاگیر داری کو ختم کیے بغیر اور سرمایہ داری کے بے لگام گھوڑے کو قابو کیے بغیر مثبت تبدیلی کا تصور عبث ہے ۔ اس کے باوجود بھی دو جماعتی نظام سے اُکتائے ہو ئے عوام نے تحریک انصاف کو قبول کرنا شروع کیا۔ مگر آج عمران خان کی سیاست کی اساس کیا ہے؟ فقط نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمٰن کی مخالفت اور شیخ رشید، بابر اعوان، فواد چودھری اور پرویز الٰہی جیسی دیگر شخصیات کی رفاقت جو رواں دہائی ہی میں متعدد بار سیاسی جماعتیں اور وابستگیاں تبدیل کرچکے ہیں ؟ ، اور اسی وجہ سے آج کی پاکستان تحریک انصاف پر فرانسیسی مفکر مرات کا یہ قول پوری طرح صادق آتا ہے کہ ’’ تف! اس انقلاب پر جو دورِ ماضی کا نشان مٹا نہ سکے‘‘۔
پاکستان تحریک انصاف کے قیام کی کونپل ۱۹۹۵ء میں ضیاء دور کے سابق سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمٰن اور ان جیسے دیگر ریٹائرڈ جرنیلوں کے دماغ میں اس وقت پھونٹی جب قومی سیاست میں
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کا غلبہ تھا اور ان کے مابین محاذآرائی عروج پرتھی۔ یہ حضرات پاکستان کی سیاست میں عمران خان کا تابناک مستقبل دیکھتے ہوئے ملک میں ایک تیسری سیاسی قوت کھڑی کرنا چاہتے تھے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے اثرت کو کم کیا جاسکے۔ سیاست سے متنفراور سیاست دانوں کو طاقت کے مراکزکی اختراع سمجھنے والے عمران خان نے بتدریج سیاست میں قدم رکھا ۔ ابتدا میں کچھ عرصہ وہ جنرل حمید گل مرحوم اور محمد علی درانی کے ساتھ پاسبان کا بھی جزوی حصہ رہے ، جو جماعت اسلامی کے یوتھ ونگ سے الگ ہونے والوں پر مشتمل تھی۔ جنرل حمید گل ایک پریشر گروپ کا قیام عمل میں لانا چاہتے تھے جو ان کے تئیں حکومت کودرست پالیسیاں بنانے پر مجبور کرتا رہے۔ لیکن عمران خان زیاد ہ عرصہ حمید گل کے فلسفہ اور فکر کی پیروی نہ کرسکے۔ عمران خان کی سیاست میں اصل دلچسپی اس وقت شروع ہوئی جب ۱۹۹۵ء میں جنرل مجیب الرحمٰن نے ایک نئی جماعت کے قیام کے لیے بشریٰ رحمٰن صاحبہ کے توسط سے عمران خان سے متعدد خفیہ ملاقاتیں کرنا شروع کیں ۔ ان ملاقاتوں میں جنرل مجیب عمران خان کو نئی سیاسی جماعت کے قیام کے لیے رضامند کرنے میں کامیاب ہوئے اور فوجی جرنیلوں کے جمہوری انقلاب برپا کرنے کی آرزو کی تکمیل کے لیے پاکستان تحریک انصاف کا قیام عمل لایا گیا۔ جنرل مجیب الرحمٰن اس کے پہلے سیکرٹری جنرل بنے۔ اسے اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ مغربی پاکستان کی ہر مقبول سیاسی شخصیت نے فوجی جرنیلوں (خواہ وہ حاضر سروس ہوں یا ریٹائرڈ) کی انگلی پکڑ کر سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔
جنرل مجیب کچھ ہی عرصہ بعد عمران خان سے الگ ہوگئے کہ وہ کسی کی بات نہیں سنتے۔ کم و بیش انھی خیالات کا اظہار بائیں بازو کی سیاست کے سرکردہ لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل معراج محمد خان مرحوم اور بعد میں جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین اور روئیداد خان نے بھی کیا ہے۔ عمران خان کے مزاج کی بدولت ہی پاکستان تحریک انصاف ایک حقیقی جمہوری انقلابی اور عوامی جماعت کی شکل اختیار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پارٹی کے سنجیدہ اہل دانش نے متعدد بار نظریاتی کارکن تیار کرنے لیے پارٹی کے ترجمان اخبار کے اجراء اور ر کارکنوں کی سیاسی تربیت کو لازمی قرار دیا لیکن عمران خان نے ان تجاویز پر توجہ نہیں دی۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارٹی کے قیام کے بائیس سال کے بعد بھی آج پارٹی کی قیادت پرانے سیاسی کارکنوں کی بجائے جن افراد کے پاس ہے ان کے نزدیک سیاست مشن کی بجائے پیشے کی حیثیت رکھتی ہے ۔
پارٹی کے قیام سے لے کر آج تک مختلف مواقع ایسے آئے کہ عمران خان تحریک انصاف کو ایک منظم عوامی سیاسی جماعت بناکر ملک میں حقیقی قیادت کا خلا پُر کرسکتے تھے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔عمران خان نے ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی سات نشستوں پر انتخاب لڑا اور شکست سے دوچار ہوئے۔ بہتر ہوتا کہ وہ اپنی شکست سے سبق سیکھتے اور پارٹی کو منظم کرتے لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔
۱۹۹۹ء میں جب پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کا تختہ اُلٹا توعمران خان نے بھی انھیں خوش آمدید کہا اوران کی حمایت میں سر دھڑ کی بازی لگادی۔ مشرف کابینہ کے وزیر خارجہ عبدالستار اور وزیر خزانہ شوکت عزیز، عمران خان کی تجویز پر ہی مشرف کابینہ کا حصہ بنے تھے۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد جب مشرف نے ’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا اور پاکستان کو امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا تو عمران خان پرویز مشرف کے اس نعرے کے سب سے بڑے مبلغ بنے رہے اور پرویز مشرف کے ریفرینڈم کی مہم میں بھرپور کردار بھی ادا کیا ۔ لیکن جب مشرف نے اقتدار چودھری برادران کے سپرد کردیا تو عمران خان مشرف کے بھی مخالف ہوگئے۔ مگر مشرف نے پھر بھی وضع داری کا مظاہرہ کیا اور عمران خان اور طاہر القادری کو قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست ۲۰۰۲ ء کے انتخابات میں دلواد دی۔ جو اہل نظر انتخابات کی حرکیات کو سمجھتے ہیں وہ حیران تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قومی اسمبلی کی نشست جیتنے والے کے پاس صوبائی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہ ہو۔ یہ عمران خان کے پاس دوسرا موقع تھا کہ وہ پارٹی کو منظم کرتے کیونکہ اس وقت ملک کی دو بڑی شخصیات بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ملک سے باہر تھے اور عمران خان اگر چاہتے تو یہ خلا پُرکرسکتے تھے لیکن وہ اس بار بھی کچھ نہ کرسکے۔ عمران مشرف کی مخالفت میں یہاں تک چلے گئے کہ جس نواز شریف اور بے نظیر کے خلاف وہ سیاست میں آئے تھے اسی نواز شریف کے قیادت میں بننے والی مشرف مخالف اے پی ڈی ایم کا معمولی رکن بھی بننا قبول کر بیٹھے۔ ۲۰۰۸ء میں تحریک انصاف نے سیاسی شعور سے بے بہرگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور پارلیمنٹ میںنمائندگی سے محروم رہی۔ (جاری ہے)