جب لوگ تخت والوں سے بیزار ہو جاتے ہیں تو اُن سے جان چھڑانے کے روایتی طریقے ہوتے ہیں۔ اِن میں حکمرانوں کی مدتِ ملازمت ختم ہونے سے پہلے ہی عدم اعتماد کی لاٹھی سے حکمرانوں کو بھگا دینا یا مدتِ ملازمت ختم ہو جانے کے بعد نئے انتخابات میں ووٹ کے ذریعے اُن پر لعنت بھیجنا شامل ہے۔ اسے مہذب لوگ جمہوری طریقہ کہتے ہیں جبکہ مزاجاً غیرجمہوری حکمرانوں کو جمہوریت کی عزت سے کھیلنے سے روکنے کے لیے غیرجمہوری طریقہ بھی بروئے کار لایا جاتا ہے جس میں طاقت کے سوار اچانک نمودار ہوکر حکمرانوں کو محلوں سے نکال کر جیل کی کوٹھڑیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ اِسے مارشل لاء کہتے ہیں۔ اِس طرح کی تبدیلی کے بعد عموماً لوگ اپنے مسائل میں کچھ ریلیف محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں نے بھی نئی دنیا میں حکمرانوں کی تبدیلی کے اِن دونوں طریقوں کے اکثر مزے لیے ہیں یعنی جمہوریت کا مزا اور مارشل لاء کا کڑوا مزا۔ اِس وقت ملک میں لوگوں کے لیے لوگوں کی حکومت قائم کرنے کے لیے نگران حکومت موجود ہے۔ آئین بھی ہے اور سب سیاسی جماعتیں اِسی کے تحت جمہوریت کی ٹرین میں اپنی اپنی سیٹیں چاہتی ہیں۔ ایسا بھی ہے کہ جن گھروں میں اکثر چولہا نہیں جلتا وہاں مسلسل میڈیا چلتا ہے جس کی بنا پر معلومات کی فراہمی اور شعور کی بڑوہت میں دن دُگنی رات چُوگنی ترقی جاری ہے۔ تازہ حالات میں باوقار، غیرجانبدار اور بیشتر لوگوں کے اعتماد پر پورا اترنے والی امید سے بھرپور نئی عدلیہ بھی ہے۔ اس پوری بات کو کل ملاکر یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اِس وقت پاکستان میں حسبِ توفیق جمہوریت بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صورت میں انصاف
پسند، خوددار، غیرجانبدار عدلیہ بھی گزشتہ دنوں ظہور پذیر ہوچکی ہے اور بہادر میڈیا بھی موجود ہے۔ فوج ملکی سکیورٹی کے کاموں میں مصروف ہے۔ عام لوگوں کے لیے اچھے معاشرے کی تفسیر بیان کرنے والے اِن حالات کو عوام کے لیے بہتر حالات کہہ سکتے ہیں لیکن حقیقت میں پاکستانی لوگ مہنگائی کی وجہ سے بہتر سے مختلف حالات سے دوچار ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اِس پر بے پناہ لکھا، بولا اور سنا جارہا ہے مگر اختیار والے ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ شاید اس لیے کہ خاص بڑے سیاست دانوں کو یقین ہوچلا ہے کہ اگلے انتخابات میں لوگ انہیں ہی ووٹ دیں گے۔ تو پھر کیا ہونا چاہئے؟ اگر انتخابات ہوں تو جو کوئی بھی آگے آئے گا اور حکومت بنائے گا تو کیا وہ موجودہ نگران حکومت سے مختلف کام کرپائے گا؟ اگر نہیں تو پھر کیا صرف رسم نبھانا ہی جمہوریت ہے؟ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ انتخابات نہیں ہونے چاہئیں بلکہ اس کا اعلانیہ مطلب یہ ہے کہ انتخابات کے ذریعے ایسے لوگ سامنے آئیں جو سابقہ بے رحم حالات کی بجلی کو عوام پر گرانے کا تسلسل ثابت نہ ہوں۔ عدلیہ میرٹ پر ایسے بڑے بڑے مقدمے سن رہی ہے جو یقینا ملکوں کی تاریخ میں بڑے اہم ہوتے ہیں لیکن عام لوگ ابھی براہِ راست ریلیف سے دور ہیں اور وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال کررہے ہیں کہ ابھی کتنا وقت لگے گا؟ کیا مہنگائی کے مقدمے کو بھی سنا جائے گااور کیا اُس کی بھی لائیو کوریج ہوگی؟ مندرجہ بالا صورتحال میں لوگ کیا کریں؟ سڑکوں پر نکلیں تو کس کے لیے؟ نئے الیکشن میں ووٹ ڈالیں تو کن کے لیے؟ مارشل لاء کی دعائیں مانگیں تو کیوں؟ نہ مانگیں تو کیوں؟ وہ حکومت بنانے کے اِن طریقوں میں گزشتہ سات دہائیوں سے شٹل بنے ہوئے ہیں حالانکہ دنیا میں حکمرانی کے بظاہر یہی دو تین طریقے رائج ہیں۔ تو پھر سوچا جاسکتا ہے کہ باقی دنیا میں جن طریقوں کے ذریعے حکمرانی کرکے لوگوں کے معیارِ زندگی کو بلند کیا جارہا ہے وہی طریقے ہمارے ہاں لوگوں کو پستی میں کیوں لے جا رہے ہیں؟ ہوسکتا ہے حکمرانی کے اِن طریقوں میں ابتدا سے ہی کسی گندگی کی ملاوٹ ہوگئی ہو جس سے ہمارے ہاں ہر نظام حکومت ناکام ہو رہا ہے۔ جیسے ایک مرتبہ کسی کنویں میں پلید جانور گرکر مرگیا۔ لوگوں نے ایک سیانے سے کنویں سے بدبو آنے کی شکایت کی تو سیانے نے انہیں گُر بتایا کہ چالیس روز تک کنویں کاپانی نکال کر پھینکتے رہو۔ چالیس روز بعد جب گاؤں کے لوگوں نے کنویں کے پانی کا جائزہ لیا تو اُس میں بدبو ویسے ہی موجود تھی۔ وہ پھر سیانے کے پاس گئے۔ اُس نے کہا کہ مزید چالیس روز تک پانی نکالتے رہو۔ وہ چالیس دن بھی ختم ہونے کے بعد جب لوگوں نے کنویں کا پانی پینا چاہا تو بدبو کی وہی پرانی صورتحال تھی۔ اس مرتبہ جب وہ سیانے کے پاس گئے تو سیانے کو اچانک خیال آیا اور اُس نے پوچھا کہ کیا تم لوگوں نے کنویں میں سے مرا ہوا پلید جانور نکالا ہے؟ جس پر لوگوں نے جواب دیا، نہیں! ہم تو صرف پانی نکالتے رہے ہیں۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہمیں حکومتیں بدلنے سے پہلے غور کرکے جمہوریت اور آئین میں ایسے خلا پُر کرنا ہوں گے جو سب کوششوں کو ناکامی میں بدل دیتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں، جمہوریت آتی ہے اور جاتی ہے، مارشل لاء آتا ہے اور اٹھتا ہے لیکن پاکستانی عوام ریلوے لائن کے ساتھ نصب ایک سگنل کی مانند ہیں جو اپنے اشارے سے بے شمار ریل گاڑیاں گزار چکا ہے مگر خود کھلے آسمان تلے سردی گرمی میں اُسی جگہ پر کھڑا ہے۔