اسلام آباد: ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کی اپیل کے خلاف ریمارکس میں نیب پراسیکیوٹر نے کہا ہے کہ مریم کو کرپشن پر سزا نہیں ملی ان کے خلاف کیسز سپریم کورٹ کے کہنے پر بنائے گئے ۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت سے ملنے والی سزا کے خلاف مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بنچ نے کی ۔
سماعت کے آغاز پر نیب کے پراسیکیوٹر عثمان جی راشد کی جانب سے دلائل دیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے لکھا کہ نواز شریف کو فیئر ٹرائل کا حق دیا گیا تھا اور یہ بھی لکھا کہ مسلسل عدم حاضری پر عدالت کے پاس اپیل خارج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم کے مطابق وہ سرینڈر کریں یا پکڑے جائیں تو دوبارہ اپیل دائر کر سکتے ہیں۔ عثمان جی راشد کا کہنا تھا کہ موجودہ اپیل جرم میں معاونت سے متعلق ہے۔
جسٹس عمر فاروق کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی اپیل میرٹ پر خارج نہیں کی گئی تھی اور مریم نواز کی اپیل میرٹ پر سنیں گے۔ انھوں نے نیب پراسکیوٹر کو مخاطب کر کے کہا کہ انھوں نے اپنا کیس بنایا ہے کہ عدالتی فیصلے میں کیا قانونی سقم ہیں اور اب آپ نے اس فیصلے کا دفاع کرنا ہے۔ اس پر نیب پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ یہ کیسز سپریم کورٹ کے حکم پر بنائے گئے تھے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’ہم نے تو ٹرائل پروسیڈنگ کو دیکھنا ہے۔ سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد ریفرنس دائر اور ٹرائل ہوا۔ ریفرنس اپنے بل بوتے پر چلنا ہے اور اس اپیل کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا کوئی تعلق نہیں۔
ایون فیلڈ ریفرینس میں سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا نیب نے خود اس معاملے کی تحقیقات کیں ’کیا آپ نے جے آئی ٹی سے ہٹ کر آزادانہ انویسٹیگیشن کی ہے۔
اس پر نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’جی ہم نے الگ سے اس کی انویسٹیگیشن کی تھی۔ نیب نے بھی آزادانہ تفتیش کی، ملزمان کو کال اپ نوٹسز بھجوائے گئے تھے۔‘ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے اثرات ہو سکتے ہیں‘
عدالت کا وکیلِ استغاثہ سے کہنا تھا کہ مریم نواز پر الزام ہے کہ انھوں نے گمراہ کیا، کسے گمراہ کیا یہ آپ نے بتانا ہے۔ اس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ مریم نواز کو عدالت نے گمراہ کرنے پر سزا نہیں دی۔مریم نواز پر الزام یہ نہیں ہے کہ انھوں نے کرپشن کی یا کرپٹ پریکٹسز میں ملوث رہیں۔
جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ آج نواز شریف ہمارے سامنے نہیں یہ بتائیں مریم نواز کے خلاف نیب کا کیس کیا ہے۔ ایک جملے میں مریم نواز کے خلاف کیس بتانا ہو تو کیا ہو گا؟
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ اگر مریم نواز نے اثاثے بنانے میں معاونت کی تو پھر ٹرسٹ ڈیڈ اور کیلبری فونٹ کو چھوڑ کر 1993 سے چلیں۔ اس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے کو 2006 میں ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ لے کر چلیں گے۔
نیب پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے 2006 میں مدد اور معاونت کی۔ اس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ پھر تو 1993 میں مریم نواز کا کوئی کردار نہیں ہوا۔
جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ آپ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے 1993 میں اثاثے خریدے اور چھپائے۔ آپ نے پھر شواہد سے ثابت کرنا ہے کہ انھوں نے اپنے والد کی مدد اور معاونت کیسے کی؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے نیب کے وکیل سے کہا کہ ہم وہ ٹریک کلیئر کر رہے ہیں جس پر آپ نے آگے جانا ہے۔
سماعت کے دوران نیب کے وکیل نے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا تو جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو آبزرویشن دیں اس کا آپ کو ابھی فائدہ نہیں ملنا اور نیب کو تمام الزامات آزادانہ طور پر ثابت کرنے تھے۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی وہ آبزرویشن احتساب عدالت میں مقدمے سے پہلے تک تھیں۔ سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے یہ بھی کہا کہ ہم نے ایک فیصلہ لکھنا ہے تو ہمیں سب چیزوں میں کلیئر ہونا چاہیے۔
عدالت نے نیب کے وکیل سے جب یہ سوال کیا کہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف آپ کا کیس کیا ہے ایک لائن میں بتائیں‘ تو پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے والد کی جائیداد بنانے اور چھپانے میں معاونت کی۔
اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پھر آپ نے بتانا ہے کہ 1993 میں مریم نواز نے جائیداد لینے میں مدد کی۔ عدالت نے نیب کے وکیل سے کہا کہ یا تو آپ بتائیں مریم نواز کا کردار 1993 میں جائیداد لینے میں تھا یا پھر بتائیں کہ انھوں نے کیسے ٹرسٹ ڈیڈ بنا کر اُس جائیداد کو بنانے میں 2006 میں مدد کی۔
اس پر نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ لندن کی جائیداد خریدنے کی حد تک مریم نواز کا کوئی کردار نہیں تھا۔ جسٹس عامر فاروق نے نیب کے وکیل سے کہا کہ ’آپ خود کو بند گلی میں لے کر جا رہے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ نوازشریف نے کیا کہیں بھی کہا کہ یہ جائیداد اُن کی ہے۔ اس پر مریم نواز کے وکیل کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کسی بھی فورم پر ایسا نہیں کہا۔
اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف اسی گھر میں جا کر رہتے تھے۔ اس پر جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آدھے لوگ دوسروں کے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آپ فی الحال صرف پراپرٹی کی ملکیت کو نواز شریف سے لنک کر دیں۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر کوئی بات پبلک نالج کی ہے تو اس سے بارِ ثبوت منتقل تو نہیں ہو جاتا۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر سماعت 29 ستمبر تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔