سیلاب نہیں پتھروں کی بارش

سیلاب نہیں پتھروں کی بارش

جیسے ہمارے اعمال،کرداراورافعال ہیں ان کے سامنے تویہ سیلاب معمولی شئے ہے،ہم تو ان بے موسم اورطوفانی بارشوں سے زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ہم پرآسمان سے پتھروں کی کوئی بارش ہو۔ یہ  تو اس اللہ کاکوئی خاص فضل وکرم اورنبی آخرالزمانﷺ سے نسبت کااثروثمر ہے کہ ہم ایسے اعمال، افعال اورکردارکے باوجود ابھی تک پتھروں کی بارش جیسے عذاب سے بچے ہوئے ہیں۔ وہ کونسے گناہ۔۔کونسے جرائم اورکونسے سیاہ کام ہیں جوہم نے نہیں کئے یاہم نہیں کررہے۔؟اپنے گریبان میں جھانک کراگردیکھاجائے توپچھلی قومیں جن اعمال،افعال اورکردارکی وجہ سے تباہ اوربربادہوئیں ان اعمال اورافعال میں کوئی کام اورکوئی چیزکیاہم نے چھوڑی ہے یاہم سے رہ گئی ہے۔۔؟اللہ پاک کی نافرمانی اورنبی کریم ﷺکے مبارک تعلیمات سے روگردانی میں توہم شیطان کوبھی مات دے چکے ہیں۔جس کام کواللہ کی طرف سے کرنے کاحکم ہے وہ توہم کرنہیں رہے لیکن جس کام سے ہمیں منع کیاگیااورسختی سے بازرہنے کی تاکیدکی گئی اسے ہم ایسے کررہے ہیں کہ جیسے ہم کوئی بہت بڑاجہادکررہے ہیں۔حرام،حلال اورگناہ وثواب کے درمیان تفریق توتقریباًہم نے ختم کرادی ہے۔بے حیائی وبے شرمی میں آج بھی ہماراکوئی ثانی نہیں۔انصاف کیا۔؟ ناپ تول والے ترازوبھی ہمارے آج ایک طرف کوجھکے ہوئے ہیں۔جھوٹ،فراڈ،دھوکہ اورخیانت میں توہم سے آگے کوئی ہے نہیں۔زبانیں توہماری جانوروں سے بھی لمبی اورظلم والے ہاتھ ہلاکوخان اورچنگیزخان سے بھی بڑے ہیں۔پیار،محبت اوربھائی چارے وصلہ رحمی کوتونہ جانے ہم کب کے دفن کرچکے ہیں۔نہ کوئی کافرہم سے محفوظ ہے اورنہ اپنا کوئی مسلمان ہم سے خوش۔غیرکیا۔؟ہم نے تودنیاوی مفادات کے لئے اپنوں کی جان،مال،اولاد اورعزت کوبھی کبھی نہیں بخشا۔پہلوں کے توصرف دامن داغدارہوتے تھے ہمارے توسرسے پاؤں تک داغ ہی داغ ہیں۔اپنے دامن میں بڑے بڑے گناہ، ہر قسم کی برائیاں اوردنیاجہان کے جرائم لئے ہم پھربھی دوسروں سے پوچھتے رہتے ہیں کہ اس ملک میں سیلاب،زلزلے اوردیگرعذاب کیوں آتے ہیں۔؟جس مٹی پرہمارے جیسے اللہ اوراس کے رسول ﷺکے باغی لوگ ہوں وہاں سیلاب اورزلزلے نہیں آئیں گے تواورکیاآئیگا۔؟متاثرین زلزلہ کے کفن بیچنے اورسیلاب زدگان کے گوشت نوچنے والے کیااس بات کے مستحق نہیں کہ وہ اس 
دنیامیں ہی نشان عبرت بنے۔سیلاب اورزلزلوں کے بارے میں توسب سوال پوچھتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں کوئی نہیں جھانکتا۔آپ تاریخ اٹھاکردیکھیں اس ملک میں جب بھی کوئی آفت،کوئی مصیبت یاآزمائش کی کوئی گھڑی آئی ہم ٹھیک ہونے کی بجائے پہلے سے زیادہ خراب ہوئے۔زلزلے سے شہروں کے شہراورگاؤں کے گاؤں ہم نے اپنی ان آنکھوں سے تباہ ہوتے دیکھے۔درجنوں اورسینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ ہمارے سامنے چندلمحوں میں مال ومتاع اوراولادسمیت ملبوں تلے دب گئے لیکن اس کے باوجودہم زندہ بچ جانے والے اس سے کچھ سبق حاصل نہیں کر سکے۔ اسی طرح اب حالیہ سیلاب میں بھی شہروں کے شہر کیا۔؟ بلوچستان،پنجاب اورخیبرپختونخواتک ہزاروں ولاکھوں لوگوں کاسب کچھ ہمارے سامنے سیلاب میں بہہ گیالیکن پھربھی ہماری آنکھوں سے غفلت کے پردے ہٹ نہیں سکے۔مسلمان ہوکرجوکام ہم کررہے ہیں واللہ ایسے کام تووہ کالے کافربھی نہیں کرتے۔پانچ ہزاروالاتمبواوردس ہزاروالاخیمہ سیلاب کے اگلے دن دس اوربیس ہزارمیں بیچناکیایہ کوئی مسلمانی ہے۔؟مسلمانوں کی تاریخ،روایات اورعادات تویہ نہیں۔وہ بھی تومسلمان تھے جواپنے حصے کاپانی دوسرے مسلمان ساتھیوں کوپلاکر خودپیاس سے تڑپ تڑپ کرجام شہادت نوش کرتے تھے۔ہم جوکام کررہے ہیں ایسے کام تومسلمان اورانسان کیا۔؟جانوربھی نہیں کرتے۔ اب تک ہم نے اس ملک میں متاثرین زلزلہ اورسیلاب زدگان کے ساتھ غریبوں، مجبوروں، بے سہارا اور لاچار لوگوں کے تن سے کپڑے بیچنے اورمنہ سے نوالے چھیننے کے سوااورکوئی کام ہی نہیں کیا۔غالباًاس نیک کام کے علاوہ اور کوئی کام ہمیں آتابھی نہیں۔ اب توہم اتنے وقت شناس ہو گئے ہیں کہ کس کی کیامجبوری ہے ہم صرف وقت اورچہرے کو دیکھ کر فوراً مجبوری تک پہنچ جاتے ہیں۔ اگرکسی کی کوئی مجبوری نہ ہوتوذخیرہ اندوزی، قلت اورمصنوعی بحران کے ذریعے اسے مجبوری کے درجے تک پہنچانے کاگراورہنربھی ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔یہ جوایک دن ملک سے آٹا، چینی، ڈالڈا اور دوائیاں غائب ہوتی ہیں اوردوسرے دن ان کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں کیایہ کام کوئی کالاکافریاکوئی گورا انگریز باہر سے آ کر کرتا ہے۔۔؟ نہیں ہرگز نہیں۔ یہ سارے کام انتہائی ایمانداری، دیانت داری اورپابندی کے ساتھ کلمہ پڑھنے والا وہ مسلمان کرتاہے جواتنی پابندی کے ساتھ فرض نمازبھی کبھی نہیں پڑھتا۔ آپ مشرق سے مغرب اورشمال سے جنوب تک اس ملک میں دیکھیں آپ کو یہاں کسی ایک صوبے اورشہرنہیں بلکہ گلی گلی اورقدم قدم پرایسے ہزاروں، لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمان ملیں گے جواپنے ہی کسی مسلمان بھائی کو لوٹنے، کاٹنے اورڈسنے کے لئے بلی کی طرح تاک لگائے بیٹھے ہوں گے۔جھوٹ،فریب،دھوکہ اورظلم کوان سب نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔ بازار، ہسپتال، سکول، دکان، دفتریہاں تک کہ گھروں میں بھی جب تک یہ جھوٹ،فریب، دھوکہ اورظلم کااستعمال نہ کریں توان پرٹائم نہیں گزرتا۔کام کاج توان کاہے ہی ساراجھوٹ،فریب اوردھوکے والے سسٹم پر۔کسی مجبور،غریب اورلاچار کی مجبوری، لاچاری اورغریبی والی چادرکوجب تک برسربازاریہ تارتارنہ کریں اس وقت تک انہیں کاروبارکرنے کامزہ نہیں آتا۔کوئی بھوک سے بلکتاہے یادوائی نہ ملنے سے مرتاہے ان کااس سے کوئی لینادینانہیں ہوتا۔ان کی نظرکل بھی غریب،مجبوراورلاچارکی جیب پرتھی اوران کی نظریں آج بھی پیسے فقط پیسے پرہی ہیں۔لوگ توکہتے ہیں کہ انسان اورانسانیت سے بڑھ کرکوئی چیزنہیں لیکن ان کے نزدیک زر اور زمین سے آگے اوربڑھ کرکوئی شئے نہیں۔اپناجہنم بھرا اور گھر آباد ہو تو باقی لوگ اور دنیا سیلاب میں بہے یازلزلے کے نیچے آئے ان کااس سے کیا۔۔؟ یہی وہ ایماندار،امانت داراوردیانت دارمسلمان ہی تو ہیں جنہوں نے ایک زمانے میں متاثرین زلزلہ کے کفن بیچے اب دیکھنایہی لوگ سیلاب زدگان کے کپڑے بھی بیچنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ بازار ہو، ہسپتال، سکول، دکان، فیکٹری، کارخانہ یا کوئی سرکاری دفترکسی مجبوراورلاچارکوان ایمانداروں نے لوٹنے کے بغیرنہ پہلے کبھی چھوڑاہے اورنہ اب چھوڑیں گے۔ملک کاذرہ ذرہ ایسے مسلمانوں سے بھرا پڑاہے۔ آپ باہرنکلیں تواس ملک میں سبزی وفروٹ کی ایک ریڑھی سے لیکر ہسپتال، سکول، بازار، مارکیٹ اورگلی محلے کی دکان تک ہرجگہ آپ کا ایسے مسلمانوں سے قدم قدم پر واسطہ پڑے گا۔ یہ فرض نماز،حج،زکوٰۃ اورروزے تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن کسی مجبور اور لاچار انسان کولوٹے وڈسے بغیر چھوڑناان کی عادت اورفطرت نہیں۔یہ بلی کی طرح تاک لگائے کسی مجبور اور لاچارانسان کو لوٹنے کے لئے ہروقت تیاربیٹھے رہتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا سوال ہوتا ہے کہ زلزلہ کیوں ہوا یا سیلاب کیوں آیا۔۔؟کوئی ان کوبتائے تو سہی کہ یہ سیلاب اور زلزلے تومعمولی شئے ہے تم پرکہیں پتھروں کی بارش نہ ہو۔

مصنف کے بارے میں