کیا کسی کے علم میں ہے کہ ڈینگی مچھر ہر سال انہی دنوں پاکستان آتا ہے، قیمتی جانیں نگلتا ہے اور چلا جاتا ہے، اور پھر کیا کسی کے علم میں یہ بات بھی ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں اتنی اموات کورونا وائرس سے نہیں ہوئی تھیں جتنی مچھر کے کاٹنے سے ہوئی تھی۔ ہاں! فرق صرف اتنا ہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے لیے ادارے متحرک تھے، جبکہ ڈینگی کے لیے یہ ضروری اس لیے نہیں تھے کیوں کہ یہ ایک ”مقامی“ بیماری ہے اور کورونا ایک عالمی وباء ہے۔ کورونا سے بچاؤ کے لئے دنیا ہم کو فنڈ دے رہی تھی اس لیے اْس پر توجہ بھی ضروری تھی جبکہ اس کے برعکس ڈینگی کو ہم نے اپنے وسائل سے حل کرنا ہوتا ہے اس لیے اس پر خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ اور پھر اس بار تو سیلاب کے پیش نظر حالات زیادہ گھمبیر ہونے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ کیوں کہ مون سون بارشوں کے نتیجے میں صفائی کی ابتر صورتحال اور جگہ جگہ جمع ہونے والا بارش کا پانی مچھروں کی افزائش کا سبب بن رہا ہے، فیومیگیشن نہ ہونے کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہوگئی ہے جو ڈینگی اور ملیریا کے کیسز میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ڈینگی نے پہلے بھی تباہی پھیلائی تھی کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئی تھیں،اب ایک بار پھر وار کر رہا ہے۔
اس مچھر کا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت یہ چاروں صوبوں میں اپنے گل کھلا رہا ہے، جبکہ اس کے ساتھ دیگر بیماریوں نے بھی سیلاب زدگان کو آ لیا ہے، جیسے اس وقت سندھ سب سے زیادہ متاثر ہے، جہاں لاکھوں خواتین زچگی کے مسائل سے گزر رہی ہیں، اور پھر محکمہ صحت کے مطابق سندھ بھر میں اب تک 12 لاکھ21 ہزار سے زائد افراد بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ سانس، دمہ اور سینے کی بیماریوں،معدے، جلدی امراض، ڈینگی، ملیریا اورڈائریا کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بلوچستان کے علاقوں ڈیرہ مرادجمالی،نصیرآباد اور جعفرآبادمیں بھی سیلاب متاثرین میں گیسٹرو، ڈائریا اور جلدی امراض کنٹرول سے باہر۔ بخار، ہیضہ، آنکھ اور جلدی امراض میں کئی گنا اضافہ بھی
دیکھنے میں آیا ہے۔ جبکہ اس دوران صوبائی حکومتوں کو جس سرعت سے کام کرناچاہیے وہ نہیں کر پارہے۔ اللہ کا فرمان ہے۔ایک انسان کی زندگی بچانا پوری انسانیت بچانے کے مترادف ہے۔کسی بھی بااثر شخص کے لیے ایئر ایمبولنس تک پہنچ جاتی ہے لیکن غریب کے لیے پینا ڈول بھی نایاب۔ ہم ایسی قوم ہیں جو کفن بھی چوری کر لیتے ہیں، جنازہ سامنے رکھا ہو،اورکچھ نہیں تو گلاب کے پھول ہی اٹھا لیتے ہیں۔ اس وقت پنجاب میں 54 ہزار 427 افراد سانس کی بیماریوں،42 ہزار 283 افراد جلدی امراض، 24 ہزار 446 افراد ہیضہ، 24 ہزار 675 بخار اور 3 ہزار 39 افراد آنکھوں کی بیماریوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ سندھ میں سینکڑوں افراد۔خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں 77 افراد۔لاہور میں تیس جبکہ پنجاب بھر میں 600 کے قریب ڈینگی مریض اسپتال میں داخل ہوئے ہیں۔ کیا اس وقت پرائیویٹ ہسپتال کے مالکان کوجذبہ خیر سگالی کے تحت میدان میں نہیں آنا چاہیے۔ سیدناابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سات آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں رکھے گا،جس دن سوائے اس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا، حاکم عادل اور وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہو اور وہ دو اشخاص جو باہم صرف اللہ کے لیے دوستی کریں،جب جمع ہوں تو اسی کے لیے اور جب جدا ہوں تو اسی کے لیے۔ وہ شخص جس کو کوئی منصب اور جمال والی عورت زنا کیلئے بلائے اور وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اس لیے نہیں آسکتا اور وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے، یہاں تک کہ اسکے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے اور اسکی آنکھیں آنسووں سے تر ہو جائیں۔
بہرکیف میں ایک ڈاکٹر تو نہیں مگر تھوڑا بہت نالج اس حوالے سے رکھتی ہوں کہ ڈینگی ایک مخصوص مادہ مچھر ایڈیز ایجپٹائی کے کاٹنے سے پھیلتا ہے جو صاف پانی میں نشو و نما پاتا ہے، بارش کے نتیجے میں جمع ہونے والا پانی ڈینگی مچھر کی افزائش کا سبب بنتا ہے، اگست سے نومبر تک ڈینگی کے کیسز بڑھ جاتے ہیں۔لیکن اس موقع پر مافیا ایک بار پھر متحرک ہو گیا ہے،پیناڈول جو اس کی واحد دوائی ہے ایک پیکٹ کی قیمت 1200روپے ہو چکی ہے،اور پھر یہی نہیں جان بچانے والی سو سے زائد ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے، گزشتہ برس مختلف ادویات کے نرخوں میں پندرہ فیصد اضافہ کیا گیاتھا، اس سال پھر اضافہ کردیا گیا،حالانکہ خام مال کی کمی افرادی قوت کے معاوضے میں اضافہ یا حکومتی ٹیکسوں کی شرح میں کوئی زیادتی نہیں ہوئی ہے۔ہر دور حکومت میں ادویات کے نرخ کم کرنے پر توجہ نہیں دی گئی،اس کا نتیجہ ادویہ ساز اداروں کی من مانی کی صورت میں نکل رہا ہے۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ پہلے بھی حکومت نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے جن ادویات کی قیمتوں میں 15 سے 24 فیصد اضافے کی اجازت دی تھی، فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے بدانتظامی اور کمزور حکومتی گرفت کی وجہ سے نرخوں میں 24 سے 50 فیصد اضافہ کرلیا تھا، اس غیرقانونی اضافے کو روکنے کیلئے حکومت کچھ نہ کرسکی،اس حکومتی کمزوری کا فائدہ آج بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ د راصل ڈرگ پرائسنگ کمیٹی، ڈریپ اور حکومت میں ایسے افراد موجود ہیں جو فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور ان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے حکومت کے ہاتھ پاؤں جلنے لگتے ہیں۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان علاقوں میں جہاں ڈینگی وباء و دیگر امراض پھیل رہے ہیں وہاں بڑے بڑے میڈیکل سینٹر قائم کرے، وہیں ڈینگی اور ہیضہ اور دوسری بیماریوں کے لیے کیمپوں کا انعقاد کرے، ڈینگی چونکہ ان بیماریوں میں سب سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا بیماری ہے لہٰذااس مرض کی آگہی ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے دینی چاہیے تاکہ کم سے کم جانی نقصان ہو اور حکومت ادویات مافیا کو بھی لگام ڈالے جو کسی بھی وباء کے آنے کے بعد اس قدر متحرک ہوجاتے ہیں کہ حکومت بھی اْن کے سامنے بے بس نظر آتی ہے، ایسا کرنا ناصر ف غیر اخلاقی ہے بلکہ یہ سب سے بڑا جرم بھی ہے۔ جس کی تلافی کبھی نہیں ہوسکتی۔