بلاول بھٹو زرداری بہت تیز جا رہے ہیں۔ اللہ خیر کرے، ریت سے بت نہ بنائیں جن کے ساتھ رہے ان کے بارے میں ذرا سی احتیاط برتیں زبان ہی انسان کو عزت بخشتی ہے، ریمارکس میں احتیاط ارد گرد سے محتاط رہیں بات بن جائے گی۔ سیاست میں تو دیکھ بھال کر پیاں پیاں چلنے، احتیاط سے قدم ا ٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں اندھیرے میں تیز قدم چلنے سے ٹھوکر لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ بندہ ایک بار گر جائے تو اٹھنے میں دیر لگتی ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے حالیہ انتخابات میں ٹھوکریں لگی ہیں۔ یہ انتخابات ٹریلر تھے۔ شب و روز یہی رہے (بدلنے کی امید بھی نہیں، تبدیلی خوشحالی ڈراؤنا خواب بن کر رہ گئی ہے) تو بلدیاتی اور آئندہ عام انتخابات میں بھی اسی سے ملتے جلتے نتائج برآمد ہوں گے۔ پنجاب نہیں ٹوٹا اب کیا ٹوٹے گا،وزیر اعظم سب سے زیادہ فکر مند ”جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے“ اپنے بندے کی موجودگی میں لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں شکست، العیاذ باللہ، 3 سال بعد لاہوری ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ ملتانی 3 سال پہلے بڑے جوش میں تھے۔ 3 سال بعد ہوش آیا ہے۔ پنڈی وال اپنے فرزند ارجمند کی تقریریں سن سن کر تنگ آگئے۔ وہی ڈھاک کے تین پات، فرزند ارجمند کو مستقبل تاریک نظر آنے لگا ہے۔ سیاست سے ریٹائرمنٹ کا عندیہ دے رہے ہیں۔ عوام کہتے ہیں ہم پہ احساں جو یہ کرتے تو یہ احساں ہوتا ”پرانے زخم ہیں کافی شمار کرنے کو۔ ہم اب کسی بھی شناسائی سے نہیں ملتے“۔ سارے گفتار کے غازی ”نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے، یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں“ گفتار بھی ایسی کہ سینے میں انتقام کی آگ بھڑکائے دل میں آگ لگائے سیاست میں ادب آداب نہ ہوں، بزرگوں یا بڑی عمر کے لوگوں کو گالیوں اور جگتوں کا نشانہ بنایا جائے ”تو رہ جاتی ہے چنگیزی“ کسی صاحب نے پوچھا ”گچی“ کیا ہوتی ہے ہم نے کہا شہباز گل سے پوچھو، عجیب پرابلم ہے۔ لوگوں کو روٹی نہیں ملتی، وزیر اعلیٰ سے کہا جاتا ہے۔ لاہور کو خوب صورت بناؤ اور کیا بنائیں گے تو بنائی جا تو ڈھائی جا والا معاملہ ہے۔ کیا سڑکوں پر سونے چاندی کی اینٹیں لگانی ہیں۔ بنیادی مسائل پر توجہ نہیں خوب صورتی حسن نظر سے آتی ہے۔ یہاں تو نظر ہی کچھ نہیں آتا، لوگ مہنگائی، بیروزگاری اور لوٹ مار سے پریشان ہیں۔ ووٹ کیا دیں گے، کس کو دیں گے،کیوں دیں گے، جس سے پوچھو ووٹ دو گے جواب نفی میں ملتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں ناکامی کے محرکات اور وجوہات پر غور کی فرصت نہیں، معاف کیجیے ملا کیا ہے؟سننے کو تقریریں دیکھنے کو ٹی وی پر گالم گلوچ، پڑھنے کو جگتیں ”کلیجہ چاہیے اخبار دیکھنے کے لیے“ یا پھر ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ کہ مہنگائی 17 فیصد تک بڑھ گئی، یوٹیلٹی اسٹورز پر بھی آٹا، دال، چینی، گھی کی قیمتیں اتنی مہنگی کہ غریب خریدنے نکلے تو قیمتیں دیکھ کر دل مسوس کر واپس لوٹ آئے۔ لوگوں کے
پاس تین برسوں کے اعداد و شمار ہیں۔ آٹا 45 روپے سے 80 روپے، چینی 55 سے 110، 115 اور 120 روپے کلو، خوردنی تیل اور گھی 140 روپے سے 320 روپے، دودھ 80 روپے سے 140 روپے کلو، دالیں، سبزیاں اور دیگر اشیائے صرف غریب کیا امیر کی پہنچ سے بھی باہر، بجلی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر پندر،ہ دن بعد اضافہ 15 ماہ میں 19 بار پیٹرول کی قیمت میں اضافہ، اس عرصہ میں 13 بار معمولی کمی کے باوجود پیٹرول 48 روپے لیٹر مہنگا ہوا۔ یادش بخیر یہی کوئی تین چار سال پہلے کی بات ہے۔ لوگ بھولے تو نہیں ہوں گے۔ اس وقت پیٹرول 64 روپے لیٹر تھا تو کنٹینر سے اعلان کیا جاتا تھا پیٹرول 46 روپے لٹر ہونا چاہیے۔ حکومت لیوی ٹیکس کی مد میں عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔ فرزند پنڈی بجلی گیس کے بلوں کو جلانے کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ اب آئینوں سے آنکھیں چرانے لگے ہیں۔ وہ حکومت مہربانوں کی مہربانی سے رخصت ہوئی۔ 3 سال بعد بھی ڈاکہ ڈالنے کا رواج ختم نہ ہوسکا۔ پیٹرول بڑھ کر 124 روپے لیٹر ہوگیا۔ بجلی کے بل دیکھ کر اختلاج قلب ہونے لگتا ہے۔ مرے پر سو درے آرڈی نینس کے ذریعے بلوں میں ایڈوانس انکم ٹیکس بھی لگ کر آیا کرے گا۔ جو 5 فیصد سے 35 فیصد تک ہوگا۔ ”دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا۔ سامنے رکھا تھا بل یاد آیا“ مہربانی کی انتہا اوگرا نے ایک روپیہ بڑھانے کو کہا صاحب نے 5 روپے بڑھا دیے سخی داتا ایسے ہی ہوتے ہیں ”مانگنے والوں کو حاجت سے سوا دیتے ہیں“ عوام کا پیٹ کاٹ کر کس کا پیٹ بھرا گیا۔ جیبیں مال سے خالی، دل جذبات سے عاری، ووٹ دینے کو کس کا جی چاہے گا۔ شکست کی وجوہات کے بارے میں مرتب کردہ رپورٹوں میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ حالانکہ عوام کے ساتھ اس ”مالی دھاندلی“ کی نشاندہی کی جانی چاہیے۔ 3 سال سے مسلسل تجارتی خسارہ، بجٹ خسارہ،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور دیگر بے شمار خساروں ہی سے جان نہیں چھوٹ رہی، قرآنی حکم ”زمانے کی قسم تمام انسان خسارے میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائے اعمال صالحہ کیے اور حق و صبر کی تلقین کی“ ہم صرف ایمان لائے ہیں باقی کام اہل تقویٰ اور اہل حق کا ہے۔ ہمیں ہے حکم کہ خسارہ پورا کرنے کے لیے عوام کی جیبیں خالی کی جائیں۔ 19 بار پیٹرول 13 بار دوائیں مہنگی، امراض قلب، انسولین اور اینٹی بائیوٹک دوائیں 100 سے 300 فیصد مہنگی، دل کی دھڑکنیں تو بند ہوں گی۔ اس پر وفاقی وزیر بے تدبیر کے چرکے کہ مہنگائی بڑھی 27 فیصد آمدنی بڑھی 35 فیصد گھبرانا نہیں،عوام نے گھبراہٹ سے پوچھا کس کی آمدنی بڑھی ہے۔ کوئی کسی کو جوابدہ نہیں، سارا کالم مہنگائی کی نذر ہوگیا۔ عرض کرنے جا رہے تھے کہ بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب کے طوفانی دورے کیے ایک دوست نے لکھا، ”بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے“ پنجاب سے کچھ نہ ملا کوئی گیا نہ آیا۔ اس پر بھی ایک ہی رٹ تحریک عدم اعتماد سے پہلے پنجاب حکومت پھر وفاقی حکومت گرائیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں پی پی کی 6 سیٹیں جن کے ساتھ مل کر گرا سکتے ہیں ان کے سینے تیروں سے چھلنی، انہوں نے بھی جواب دینے کی قسم کھالی،مولانا نے زبان کھولی ہے پوچھا ہے کہ کیا پیشکش ہوئی تھی جس پر پی ڈی ایم کا بیڑہ غرق کردیا۔ وہی پیشکش مولانا کو بھی ہوئی تھی دھرنے کا ستیاناس ہوا۔ بندہ سیاست کی شاہراہ پر دیکھ بھال کر چلے، پی ڈی ایم کی تباہی میں پیشکش پیش پیش، کیا پیشکش تھی جس نے اپوزیشن کے سارے پیچ ڈھیلے کردیے۔ پی پی اور اے این پی نے پی ڈی ایم کے اعلامیہ کو دیکھ کر ہی قافلے میں ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا استعفوں یا کسی اور بات پر اعتراض تھا تو پی ڈی ایم اجلاسوں میں کیا جاسکتا تھا۔ علیحدگی کی کیا ضرورت تھی کیا سوچ کر علیحدگی کی،3 طلاقیں ہوگئیں؟کیا رجوع نا ممکن ہے؟ دوستوں پر اب بھی اعتماد نہیں؟ اکیلے کیا کریں گے۔ اکیلے بندے کو تو ویسے ہی بھیڑ میں دھکے پڑتے ہیں۔ اپوزیشن کے ٹکڑے کردیے اب جوڑنے بیٹھے ہیں کہ ن لیگ اور مولانا چاہیں تو حکومت گرا سکتے ہیں۔ قربانی دینی ہوگی۔ قربانی سے گریز، تحریک عدم اعتماد پر زور، حکومتیں تحریکوں سے نہیں گرا کرتیں مگر جوشیلیبچے کو کون سمجھائے زیرک سیاست کے ماہر ابا جی نے تو چپ سادھ رکھی ہے۔