عربی زبان کے نامور شاعر متنبی کے شعر کا مصرعہ ہے ”وخیر جلیس فی الزمان کتاب“ اس کے معنی ہیں کہ زمانے میں بہترین ہمنشین کتاب ہے،اچھی کتاب اپنے قاری کے لئے ایسے دوست کی حیثیت رکھتی ہے جو اسکو کبھی تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتی،امام جاحظ فرماتے ہیں، کہ کتاب کے مطالعہ سے غم دور ہوتے ہیں، کالم میں ہم کتاب کو متعارف کر انے جسارت کر رہے ہیں، جس کے مصنف کا دعویٰ ہے کہ قاری کی زندگی کا رخ متعین کرنے کے لئے شاہکار کتاب ہے، جس کا نام ”ذہن اجالا“ ہے اس کے مصنف ارشد احمد بیگ ہیں، انہوں نے اس کو بڑے سادہ فہم میں تحریر کیا ہے، اس کا ہر مضمون، انشائیہ اپنے اندر ایک سبق رکھتا ہے، کچھ مکالمے کی صورت پیش ہیں تاکہ قاری خود کلامی سے ان سوالات کا جواب حاصل کرے جو اس سماج، کائنات اور قدرت بارے ذہن میں پائے جاتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے انسانی الجھنوں کا حل پیش کرنے کے لئے قرآن وسنت سے حوالہ جات پیش کئے ہیں، اس میں ایسے نوجوانوں کے لئے بڑا سبق ہے، جو غیر معمولی حالات کی بھی تاب نہیں لا سکتے اور جلد مایوس ہو کر کوئی سنگین اور غیر فطری قدم اٹھا کر پھر زندگی بھر پچھتاتے رہتے ہیں۔
راقم آفاق کے چیئرمین سید وقاص جعفری کا ممنون ہے کہ جنہوں تعمیری ادب پرمبنی نادر کتاب عطا کی، جس کا مطالعہ نسل نو، گھریلو، خواتین، پروفیشنل افراد کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ مصنف نے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے پردہ اٹھانے کے لئے بہت سہل انداز اپنایا ہے، اور اپنے تجربات کی روشنی میں حقیقت پر مبنی حل بھی پیش کیا ہے، اپنی تحریروں سے قاری کے قلب اور ذہن میں اجالا کرنے خوبصورت کاوش کی ہے ساری حیاتی درس و تدریس سے وابستہ رہے، ملک بھر میں اِنکے ٹریننگ سیشن ہوتے ہیں، اس وقت بھی وہ رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے وابستہ ہیں۔ زندگی سے مایوس انسانوں کے لئے اس میں سے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر کے عنوان سے وہ اس تیس سالہ لڑکی کے عزم و ہمت کی کہانی بیان کرتے ہیں، جس کی ایک ٹانگ کٹ چکی ہے دوسری سے جگہ جگہ سے ہڈیاں نکل آئی ہیں، اسکی ریڑھ کی ہڈی پرکئی فریکچرہیں، وہ ہسپتال کے بستر پربھی پُر عزم ہے کہ مجھے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنا ہے،یہ 2011 کے عہد کی بات ہے، قومی سطح کی والی بال کی یہ کھلاڑی رات کے وقت لکھنوء سے دہلی جارہی تھی اس کے گلے میں سونے کی چین تھی ڈاکوؤں نے اس کو چھیننے کی کاوش کی، سخت مزاحمت پر انہوں نے اس لڑکی کو چلتی ٹرین سے دھکا دے دیا، یہ دوسری سمت سے ٹریک پر آنے والی ٹرین سے ٹکرا کر نیچے گر گئی اور سات گھنٹے تک دونوں لائنوں کے درمیان بے یارو مدد گار پڑی
رہی،علیٰ الصبح قریبی دیہاتیوں نے اس کو ہسپتال پہنچایا، ٹراما سنٹر دہلی میں وہ زیر علاج رہی،وہ بستر سے اٹھ کر گھر جانے کے بجائے میڈم باچندری کے پاس پہنچ گئی جس نے1984میں اس چوٹی کو سر کیا تھا،ایک ایسی لڑکی جس کا ایک پاؤں مصنوعی، دوسرا کٹا پھٹا ریڑھ کی ہڈی فریکچر، موسم کی شدت اپنی جگہ، جا بجا بکھری لاشیں لیکن اس نے اپنا سفر جاری رکھا اور چوٹی کو سر کر لیا یہ دنیا کی پہلی معذور ارونیما سنہا خاتون تھی جس کا دو سال قبل ایکسیڈنٹ ہوا تھا مگر اس نے چوٹی کو سر کیا، اس کا کہنا تھا کہ اپنی ذات کے لئے خود آپ سب سے بڑے موٹیویٹر ہیں، چاہے آپ کتنی کتابیں پڑھ لیں، تاہم اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے، جس دن آپ کا اندر جاگ گیا تو پھر کوئی ہدف ناممکن نہ ہوگا۔
مضمون نگار ایک ایسے سائنسدان کی کہانی لکھتے ہیں جس نے کم عمری میں ٹرین میں ٹافیاں بیچیں، اخبارات اور سبزی فروخت کر کے گزر بسر کی، محنت کے بل بوتے پر اس نے ایک ہزار سے زائد سائنسی پیٹنٹ اپنے نام کراکر دنیا کو حیران کر دیا، اخبارات نے اسے ”صدی کا انسان“ لکھا یہ تھامس ایڈیسن تھا، اس نے بچپن کی محرومیوں کو کبھی بھی موضوع بحث نہیں بنایا،وہ کہتا تھا کہ ماضی پر اس کا بس نہیں، لیکن مستقبل اسکے ہاتھ میں ہے اس لئے ساری توجہ حال پر مرکوز کرو۔
خودکشی کے باب میں انکا موقف ہے کہ اپنے آپ کو بے لگام خواہشات کا اسیر بنا لینا بجائے خود سماجی اور نفسیاتی مسئلہ ہے،قناعت کو شیوہ بنایا جائے تو شکوہ شکایت ختم ہو جاتی ہے، حسد،جلن ڈپریشن کا سبب ہیں،جن ممالک میں اب بھی قدرے مضبوط قبائلی اور خاندانی نظام مستحکم ہے،عوام مذہب سے جڑے ہوئے ہیں وہاں خود کشی کی شرح کم ہے تاہم بد انتظامی، معاشی تفاوت، بیڈ گورننس، سماجی ناانصافی بھی اِسکی وجوہات ہیں۔
کالی رنگت انشائیہ میں لکھتے ہیں،دین اسلام نے کالے گورے پرتقویٰ اور خدا خوفی کو فوقیت دے کر انسانیت پر احسان عظیم کیا ہے،کالی رنگت والے بلال ؓ حبشی کے رتبہ کا کیا کہنا، حکیمانہ اقوال کے داعی حضرت لقمان بھی اس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، ایتھوپیا کا ملک امبر دکن کی شاہی ریاست سے وابستہ رہا، قطب الدین ایبک کا تعلق خاندان غلاماں سے تھا، سلطان التمش، غیاث الدین بلبن نے اپنی زندگی میں غربت، افلاس دیکھی،ماضی کی مشکلات کا سفر انکے عزم کی راہ میں حائل نہ ہوا یہ اس خطہ کے عظیم حکمران گزرے ہیں۔
مصنف کی التجا ہے کہ جب بھی دعا مانگو اپنے رب سے چار چیزیں ضرور مانگو، پہلی ایمان، دوسری صحت، تیسری سلامتی،چوتھی عافیت، ایمان ہی ان نعمتوں کا رخ متعین کرتا ہے، اس کے بغیر دولت، اقتدار،صلاحیت آزمائش اور فتنہ بن جاتی ہے، فرعون، قارون، نمرود، ہامان کی مثالیں سامان عبرت رکھتی ہیں۔
مصنف کا خیال ہے کہ ایمانیات کو اخلاق سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے، ہمارے اسلاف نے اس راستے پر چل کر ہی ترقی کی منازل طے کی تھیں،کامیابی اور ترقی کا راستہ اخلاقی اقدار اور کردار سے ہو کر گزرتا ہے، انہوں نے کتاب میں چند خوبصورت سطور رقم کی ہیں،قارئین کے ذوق مطالعہ کے لئے، زوال ایسے سماج کا مقدر ہے، جہاں اقدار کی پامالی مُلک،اور معاشرہ کے بڑے کر رہے ہوں، جہاں ظلم ہو وہاں افلاس اگتا ہے، جہاں عدل نہیں ہوتا وہاں افلاس اُگتا ہی نہیں بکتا بھی ہے،جب مناصب کو بچایا جائے اور اقدار کو بازیچہ اطفال بنایا جائے تو سماج کا انتشار لازمی ہے، پریشانی حالات سے زیادہ خیالات سے ہوتی ہے، مادی اشیاء سے گھر نہیں بستے یہ تربیت اور اخلاق سے آباد ہوتے ہیں،برناڈ شاہ کا کہنا ہے کہ کام وہ ہے جو ہمیں لازمی کرنا پڑتا ہے تفریح وہ جس کو ہم کرنا پسند کرتے ہیں، خوش رہنے کے لئے لازم ہے کہ تم اس پر قناعت کر لو جو تمہارے پاس ہے، جو نہیں ہے اسے بھول جاؤ، تمہارے ہاتھ میں صرف حال ہے اسکی فکر کرو، اس میں ہی جینا سیکھو۔
آئن سٹائین نے کہا جس سوچ اور ذہنی سانچے میں مسائل جنم لیتے ہیں، اسی سوچ سے اس کا حل نہیں نکالا جاسکتا، یہ کتاب ہر قاری کی زندگی کی راہ متعین کر سکتی ہے، پروفیسرڈاکٹر انیس احمد، معروف سپیکر قاسم علی شاہ اور معروف ٹرینز اختر عباس کی آرا اس کتاب کا حصہ ہیں جس کو اسلامک پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے،اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔