انصاف کے بغیر کسی بھی قوم کے لیے خوشحالی اور غربت کے خاتمے کے اہداف کا حصول ممکن نہیں۔دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جس نے انصاف کی عدم دستیابی کی صورت میں ترقی حاصل کی ہو۔پاکستان کی ترقی کی راہ میں واحد رکاوٹ نا انصافی اور دیر سے انصاف کی فراہمی ہے۔جرائم کی شرح میں اضافے کی واحد وجہ بھی انصاف کی عدم دستیابی ہے۔یہاں غریب کے لیے قانون سخت اور امیر کا قانون اس کی تجوری میں قید ہے۔سب سے زیادہ مراعات لینے کے باوجود عدلیہ میں کسی ایک فیصلے میں برسہا برس کا لگ جانا باعثِ حیرت و تشویش ہے۔پاکستان کے اعلیٰ اداروں میں نوجوان نسل کا میرٹ غصب کر کے ریٹائرمنٹ کے بعد تعیناتی بھی قتلِ انصاف ہے۔ہمارا معاشرہ بھی اس وقت’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کے فرمولے پر چل رہا ہے۔انصاف سے عاری ہرمعاشرہ تباہی کے راستے پر ہوتا ہے وہاں جنگل کا نظام نظر آتا ہے۔ ایسا معاشرہ صرف ظلم وجبر اور دہشت و درندگی کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ایک بات جان لیجئے جہاں قانون کی بالا دستی ہوتی ہے وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے علاوہ ازیں تباہی کے سوا اس میں کچھ نہیں ہوتا۔عدل وانصاف ہی وہ پیمانہ ہے جس کی بدولت انسانیت زندہ ہے۔عدل وانصاف کا جو پیمانہ ہمیں اسلام نے دیا ہے دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے عوام مہنگائی کی چکی میں دن رات پس رہے ہیں۔خودساختہ مہنگائی اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف افسران خاموش تماشائی بنے بیٹھے
ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے کسی بھی علاقے میں ایک سے دوسرے بازار میں قیمتوں کا واضح فرق ہے۔ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ تمام افسران اعلیٰ مراعات کے ساتھ اپنے دفاتر میں براجمان ہیں۔جبکہ متعلقہ پرائس کنٹرولراور کمشنر صاحبان کی عدم دلچسپی اور نا انصافی کی وجہ سے ملک مہنگائی کے طوفان کی زد میں ہے۔جس گھر میں انصاف نا ہو بچے ڈاکو بنتے ہیں اور جس ریاست میں کوئی اصول قانون نا ہو اس کے باشندے ہلا کو بنتے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ ہر ایک بغاوت کی وجہ نا انصافی تھی۔ملک کی بقا کے لیے اداروں کو عادلانہ نظام دینا ہو گا اور قوم کو نظامِ عدل کا احترام کرنا ہو گا۔۔عدل و انصاف ہی مہذب معاشرے کا ضامن ہوتا ہے۔اسلام نے مساوات کا نظریہ پیش کر کے عصبیت کا جڑ سے ہی خاتمہ کر دیا جو عدل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔حقیقی عدل اور انصافِ کامل صرف اور صرف اللہ کی کتاب اور شریعت میں ہے جو ناقابلِ تغیر و تبدل ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:-اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ہماری شومئی قسمت کہ پاکستان میں دوہرا نظامِ عدل رائج ہے۔اس وقت روٹی چور کے لیے الگ قانون ہے اور ملکی خزانہ لوٹنے والوں کے لیے الگ۔عام آدمی بجلی،گیس،پانی کے کنکشن کے لیے مہینوں دھوپ میں جلتا ہے جبکہ امیر کا گھنٹوں میں لگ جاتا ہے۔اسلام میں عدل کا تصور ہمہ گیر اور آفاقی ہے اور اسی پر پورے دین کی بنیاد ہے۔۔ عدل و انصاف ہی کی وجہ سے اسلام قلیل مدت میں مشرق سے مغرب تک پھیل گیااور دنیا کی قومیں صدیوں پرانے اپنے مذہبی رشتے توڑ کر اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئیں۔عدل وانصاف انفرادی اور اجتمائی سطح پر نافذ کرنا ضروری ہے قول و فعل میں،اپنے ہوں یا پرائے،دوست ہوں یا دشمن انصاف ضروری ہے۔انصاف صرف عدالتوں تک محدود نہیں بلکہ استاد طالب علم، والدین واولاد،شوہر و بیوی،ملازم و مالک کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہر جگہ عدل وانصاف کے نفاذ میں ہی بقا ہے۔عدل وانصاف کی راہ میں اکثر عداوت اور قرابت رکاوٹ بنتی ہیں۔انسان کسی فرد کی عداوت اور دشمنی یا پھر اپنے کسی رشتے کی وجہ سے ظلم و نا انصافی کرتا ہے۔اس سے بھی کٹھن مرحلہ اس وقت آتا ہے جب اپنی ذات انصاف کی زد میں ہو۔اسلامی تعلیمات کے مطابق سخت ترین عداوت اور شدید ترین قربت بھی عدل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔اسلام کی نظر میں ہر تعلق و قرابت بعد میں ہے عدل و انصاف پہلے ہے۔عدل کے ذریعے ہی امن کا قیام ممکن ہے۔اور جب کہا جائے کہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے تو یہ بات ذہن نشیں رکھی جائے کہ عدل وانصاف کے بنا امن و امان کا تحفظ ممکن نہیں۔اللہ پاک ہمیں ہر جگہ، ہر معاملے میں عدل و انصاف کا دامن تھا مے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
اب کے ڈھونڈیں کہاں صدیق و علی، عمر و عثمان کہاں بستے ہیں
اپنے مالک کے وفادار ہوں جو ایسے دربان کہاں بستے ہیں
عدل و انصاف کے پیکر تھے جو اب وہ سلطان کہاں بستے ہیں
دل میں ڈیرے ہیں ہوس کے ہر سو اب وہ ایمان کہاں بستے ہیں