کوئٹہ :وزیر اعلیٰ جام کمال نے اسمبلی کے فلور پرتحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کو دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا کہ استعفیٰ نہیں دونگا ،اس ایوان سے مجھے دو ووٹ بھی ملے تو بھی میرے لیے فخر کی بات ہو گی ،ہر صورت تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرونگا ۔
وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ایک جمہوری عمل ہے اپوزیشن کے ممبران نے جس طرح اس تحریک کا ساتھ دیا اس کی بہت ساری وجوہات ہیں بی اے پی اپوزیشن جماعتوں ، تحریک انصاف کے میر نصیب اللہ مری اور بی این پی ( عوامی ) میر اسد بلوچ نے ایوان میں اپنی گفتگو کی میرا گلہ اپوزیشن جماعتوں سے نہیں بنتایقینی بات ہے کہ ساڑھے تین سالوں سے حکومت کی کارکردگی ، ترقیاتی اقدامات اور کام کے نتائج سے اپوزیشن کو سیاسی فائدہ نہیں پہنچا ۔ انہوں نے کہا کہ میرا گلہ نالاں اتحادی اراکین سے بھی نہیں ہے ۔ یہ پہلی دفعہ نہیں کہ بلوچستان میں ایسا ماحول بنا ہو ۔ ماضی میں بھی یہ چیزیں ہوتی رہی ہیں پہلے بھی عدم اعتماد کی تحریکیں آئی ہیں یہ سیاست کا حصہ ہے ۔
جام کمال نے کہا کہ مجھے بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے 41کے قریب اراکین نے قائد ایوان منتخب کیا ہے میںنے پہلے دن کہا تھا کہ اگر ان اراکین اسمبلی کا اعتماد میں نے کھودیا تو میں استعفیٰ دے دوں گا مجھے اپوزیشن نے قائد ایوان منتخب نہیں کیا اور نہ ہی ووٹ دیا ہے میں استعفیٰ نہیں دوں گا نہ ہی ہار قبول ہے مجھے اسمبلی کے اس ایوان میں ہارنا قبول ہے استعفیٰ نہیں دوں گابھلے مجھے دو دوٹ بھی ملیں یہ میرے لئے باعث فخر ہوگا۔سیاست میں اس قسم کی ہار مستعفی ہونے سے بہتر ہے جب بھی عدم اعتماد کی تحریک آئے گی میں سامنا کروںگا۔آج بھی بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے دوست میرے ساتھ ہیں اگر14اراکین اپوزیشن کی مدد سے حکومت تبدیل بھی کرتے ہیں تو بتائیں کہ وہ کہاں بیٹھیں گے ؟حکومت میں رہیں گے یا اپوزیشن بینچز پر بیٹھیں گے یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے ۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا حکومتوں میں بہت سارے لوگ خوش اور بہت سارے لوگ ناراض بھی ہوجاتے ہیں مگر ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ جب ہم کوئی بات یا تقریر کرتے ہیں تو سوشل اورا لیکٹرانک میڈیا نے اسے بہت نمایاں کیا ہے ہمیں وہ بات کرنی چاہئے جس پر کھڑے بھی رہ سکیں ہم نے اسی ایوان میں چھ مہینے قبل دیکھا کہ یہاںگالم گلوچ تک ہوئی مگر آج کی صورتحال اس کے برعکس تھی یہ جمہوری اور آئینی حق ہے کہ ہم ایک دوسرے کی بات سنیں بجٹ اجلاس کے دوران جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا ۔
انہوں نے کہا بلوچستان کے ہر ضلع میں ترقیاتی کام ہورہے ہیں،اگر ہم جیت گئے پھر ثناہ بلوچ کو استعفیٰ دینا چائیے ،انہوں نے کہا اقتدار کی بھوک ان کو ہوتی ہے جو اقتدار میں نہیں ہو تا ،ہماری کارکردگی پر تنقید کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے دور حکومت میں ہی ایجوکیشن کے حوالے سے بلوچستان میں بہت کام ہو رہا ہے،اگر میں ہار گیا میں اس پلور کو چھوڑ دونگا ۔
دوسری طرف اسپیکر بلوچستا ن اسمبلی قدوس بزنجو نے کہا ہر ایک کو حق ہے اپنی رائے دیں ، جو اراکین نہیں آئے وہ میڈیا کے سامنے آجائیں اور اپنا فیصلہ کریں ۔ پہلی بار ایسا ہوا ممبر اس طرح سے غیر حاضر ہیں، سپیکر نے کہا جام کمال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جام صاحب آپ چیر کو جواب دیں ،جام کمال نے سپیکر کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ بغیر تحقیقات کے کوئی بات نہیں کرنی چاہیے ،اگر اراکین کے لاپتہ ہونے کا مسئلہ ہے تو پولیس سے رابطہ کرنا چاہیے ۔