موبائل فون بیلنس پر کٹوتی کے پیسے کہاں جاتے ہیں ؟ہوشرباء انکشاف

12:14 PM, 20 Oct, 2017

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اقتصادی امور نے ایف بی آر کو موبائل کمپنیوں سے ود ہولڈنگ ٹیکس کی ریکوری کے نظام میں شفافیت کی سفارش کر دی کمیٹی میں اعتراف کیا گیا ہے کہ موبائل صارفین سے وصول ٹیکس فوری طور پر قومی خزانے میں منتقل کرنے کا کوئی سسٹم نہیں ہے۔

سینیٹ قائمہ کمیٹی کی نشاندہی پر اس معاملے میں پیشرفت کو یقینی بنایا جائے گا کمپنیاں ود ہولڈنگ ٹیکس کی ٹرانزیکشنز کا مکمل ڈیٹا فراہم کرنے سے گریز کرتی ہیں قائمہ کمیٹی کو یہ بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد میں مضاربہ سکینڈل کے نتیجہ میں متاثرین کے 22ارب روپے ڈوب گئے صرف 49کروڑ کی ریکوری ہو سکی ہے ملزمان میں بیشتر کی ضمانتیں ہو چکی ہیں چین نے میٹرو بس ملتان کے حوالے سے مبینہ سکینڈل میں کمپنیوں کے ملوث ہونے کی تحقیقات مکمل کر لی ہیں پاکستان کو اس سے آگاہ کر دیا گیا ہے ۔

ہماری کوئی کمپنی اور انفرادی طور پر ملوث نہیں ہے بدھ کو اس امر کا اظہار حکام نے کمیٹی کے اجلاس کی کاروائی کے دوران کیا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں پارلیمینٹ ہاؤس میں ہوا ایف بی آر کے حکام نے بتایا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کا ڈیٹا زونگ کے علاوہ دیگر تین کمپنیوں نے فراہم کر دیا ہے ٹرانزیکشنز کا باقاعدہ آڈٹ شروع کر دیا گیا ہے آئی ٹی کے جدید نظام کے ذریعے اس ڈیٹا کو ہینڈل کیا جائے گا حکام نے اعتراف کیا کہ اس جدید نظام کے حوالے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو کریڈٹ جاتا ہے

جدید سسٹم کے ذریعے ود ہولڈنگ ٹیکس کی ریکوری ہو سکے گی جب کہ اس سے قبل مانیٹرنگ کا موثر نظام نہیں تھا ایف بی آر کے حکام نے یہ بھی اعتراف کیا کہ موبائل فون صارفین سے وصول ود ہولڈنگ ٹیکس فوری طور پر قومی خزانے میں جمع ہونا چاہیے اب تک ایسا کوئی نظام وضح نہیں کیا جا سکا ہے سینیٹر محسن عزیز اور سینیٹر کامل علی آغا اور دیگر نے گزشتہ روز ایف بی آر کی جانب سے 731اشیائ بشمول دودھ، پھل ، سبزیوں ، مچھلی پر ریگولیٹری ڈیوٹیز میں اضافے کو غیر قانونی قرار دے دیا اور واضح طور پر موقف اختیار کیا کہ فنانس بل میں ترمیم کے بغیر کسی ڈیوٹی میں اضافہ نہیں ہو سکتا سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ پانچ سال قبل موبائل کمپنیوں کی ٹیکس چوری پکڑی گئی تھی اور ہم نے اس کی نشاندہی کی مگر تاحال کوئی نظام ہی نہیں بن سکا حکام نے کہا کہ ٹیکس چوری پر فوجداری کاروائی اور موبائل کمپنیوں پر جرمانہ بھی عائد ہو سکتا ہے۔

یہ بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ ساری ٹرانزیکشنز کا ڈیٹا موجود نہیں ہوتا گزشتہ سالوں میں جب جانچ پڑتال کی گئی تو ایک کمپنی کے ذمے دو ارب سات کروڑ روپے کے بقایا جات نکل آئے کمیٹی نے موبائل کمپنیوں سے موبائل فون صارفین سے وصول ود ہولڈنگ ٹیکس کی فوری طور پر قومی خزانے میں منتقلی کے لیے ایف بی آر سے دو ہفتوں میں رپورٹ مانگ لی ہے حکام نے یہ بھی اعتراف کیا کہ جہاں بھاری رقوم ہوتی ہیں وہاں مفاد بھی بڑا ہوتا ہے جبکہ ارکان کا کہنا تھا کہ جہاں بھاری رقوم ہوں وہاں بڑا ڈاکہ مارا جاتا ہے موبائل فون کے صارفین سے جیسے ہی ٹیکس کی مد میں جو پیسہ وصول ہو وہ فوری طور پر خزانے میں جمع ہونا چاہیے جبکہ یہ ٹیکس قومی خزانے کی بجائے کمپنیوں کے حسابات میں چلا جاتا ہے ۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ گڑ بڑ کے حوالے سے ”ایزی لوڈ“ کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے مضاربہ سکینڈل کے حوالے سے نیب حکام نے بتایا کہ راولپنڈی اسلام آباد میں بھی بعض مساجد میں مولوی صاحبان نے اعلان کیا کہ بینکوں سے پیسے نکال لیے جائیں کیونکہ یہ سودی لین دین ہے مضاربہ میں پیسے کھپائے جائیں جہاں حق حلال کا جائز منافع ملتا ہے اس حوالے سے فتوے بھی جاری کیے گئے کمیٹی اراکین نے دو سالوں تک یہ سکینڈل جاری رہنے کے باوجود خفیہ اداروں ، سٹیٹ بینک اور سیکورٹی ایکسچینج کمیشن کی جانب سے اس کا نوٹس نہ لینے پر اسے ان اداروں کی ناکامی قرار دے دیا کمیٹی ارکان نے واضح طور پر کہا ہے کہ مساجد میں اعلانات ہوتے رہے خفیہ ادارے کہاں تھے ۔

حکام نے بتایا کہ متاثرین نے 22ارب روپے کے کلیمز داخل کیے ہیں بعض کلیمز مبالغہ آرائی پر مبنی ہو سکتے ہیں تاہم اندازہ یہی ہے کہ چودہ ارب روپے ڈوبے ہیں 49کروڑ کی ریکوری ڈیڑھ ارب روپے کی راولپنڈی اسلام آباد میں ملزمان کے املاک کی نشاندہی اسی طرح ایک مرکزی ملزم کی جو کہ بیرون ملک فرار ہو چکا ہے کی لاہور میں ایک دودھ پیکنگ فیکٹری کی نشاندہی ہوئی ہے جسکی مالیت چار ارب روپے سے زائد ہے حکام نے کہا کہ اندازہ یہی ہے کہ چھ سے ساڑھے چھ ارب روپے کی ریکوری ممکن ہو سکے گی میٹرو بس ملتان کے سکینڈل کے حوالے سے سیکورٹی ایکسچینج حکام نے بتایا کہ 30اگست 2017 ؁ کو چین کی طرف سے ایک خط کے ذریعے بتایا گیا کہ تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں۔

چینی ضابطوں کے مطابق جب تک تحقیقات کے حوالے سے ایکشن نہیں لیا جاتا وہ تحقیقات کو پبلک نہیں ہوتی تاہم یہ معلوم ہو گیا ہے کہ یہ واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ اس معاملے میں کوئی پاکستانی یا پاکستانی کمپنی ملوث نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان سے چین میں براہ راست کسی کمپنی کو پیسے منتقل ہوئے ہیں پاکستان میں کام کرنیوالی چینی کمپنیوں کو سنگا پور ، ملائشیائ اور امریکہ سے بھی ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں نیشنل بینک اور حبیب بینک میں ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کے سکینڈل کے حوالے سے اب تک کی تحقیقات سے بھی کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کمیٹی نے ملزمان کی جائیدادوں کو مشتہر کرنے کی سفارش کر دی گئی ہے تا کہ ان کی خرید و فروخت نہ ہو سکے۔

مزیدخبریں