اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ذلفی بخاری کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل فیض حمید آرمی چیف بننا چاہتے تھے اس لئے وہ اطلاعات یا انٹیلی جنس کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ چیئر مین پی ٹی آئی عمران خان کا جیل میں ہونا پارٹی الیکشن مہم کو بہت آسان کر رہا ہے۔
نجی چینل کے ٹاک شو میں گفتگو کے دوران رہنما پی ٹی آئی ذلفی بخاری کا کہنا تھا کہ الیکشن کی تاخیر کے لئے بہانے شروع کر دیئے گئے ہیں بالخصوص خیبرپختونخوا میں موسم کا بہانا بنایا جارہا ہے، میں سمجھتا ہوں اگر ووٹ بینک تحریک انصاف سے جڑا رہا تو الیکشن کرانے مشکل ہوجائیں گے۔ الیکشن اور ٹکٹ سے متعلق تمام فیصلے عمران خان خود کریں گے، ہمیں اندازہ تھا کہ حالات ہمارے لئے سخت سے سخت ہوں گے جس کی تیاری ہم نے پہلے ہی کر رکھی تھی۔
رہنما پی ٹی آئی ذلفی بخاری نے کہا کہ الیکشن میں جس طرح سے ہمیں محدود کیا جارہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کالعدم پارٹیوں کو بھی اجازت ہے جلسے جلوسوں کی لیکن ہمیں نہیں ہے۔ البتہ ہماری پارٹی کی مقبولیت بہت ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں ہمارے ورکرزکم سے کم گرفتار ہوں۔ اتنی پکڑ دھکڑ کے باوجود ہمارا ووٹ بینک وہیں موجود ہے اور ہم یقینا الیکشن کے قریب الیکشن مہم چلائیں گے۔
ذلفی بخاری نے رہنماؤں کے پارٹی چھوڑ جانے کے حوالے سے کہا کہ اپنی مرضی سے پارٹی کوئی نہیں چھوڑ کر جارہا ہے۔ علی اعوان کے بھائی دو مہینے سے جیل میں تھے علی اعوان خود دس دنوں سے اغوا تھے تو یہی متوقع تھا کہ وہ بھی آکر پریس کانفرنس کریں اور علیحدگی کا اعلان کریں لیکن چونکہ وہ گرفتاری سے پہلے ہی ویڈیو بنا چکے تھے کہ اگر میں دباؤ میں آکر کوئی پریس کانفرنس کروں تو سمجھ لیجئے گا کہ میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے تحت پریس کانفرنس میں بولوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ علی اعوان کی مونچھ بھی کاٹ دی گئی اور پھر انہیں آئی پی پی جوائن کرادی گئی لیکن اس سے آئی پی پی کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ووٹ بینک عمران خان کا ہے۔ عثمان بزدار ہوں، صداقت عباسی ہوں، فرخ حبیب ہوں ان سب کے اغوا کے بعد کے بیان سامنے ہیں۔ جو لوگ اس طرح سے اغوا ہوئے یا جیل میں گئے ان لوگوں پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ وہ لوگ بہتر جانتے ہیں اُن کو کیا مشکلات تھیں جس کی وجہ سے انہیں تحریک انصاف چھوڑنا پڑی۔ ان لوگوں میں سوائے عامر کیانی کے کوئی ایسا نہیں ہے جو خوشی سے گیا ہو، عامر کیانی کا نظر آتا ہے وہ خوشی سے آئی پی پی گئے ہیں۔ جبکہ علی زیدی، عمران اسماعیل، فواد چوہدری آپ کو دوبارہ نظر نہیں آئے۔ اور جو لوگ عمران خان کو برا بھلا نہیں کہہ رہے وہ واپس جیل جارہے ہیں۔
جو ظلم تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ ہوا کسی کے ساتھ نہیں ہوا، شاہد خاقان ہوں، نوازشریف ہوں یا جو کوئی بھی نہیں جیل سسٹم کے تحت اندر رکھا گیا تھا اغوا نہیں کیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جب تک تحریک انصاف کا ووٹ بینک قائم ہے الیکشن نہیں ہوگا۔ سروے کرایا جائے تو تحریک انصاف سب سے مقبول پارٹی ہوگی۔
پی ٹی آئی رہنما ذلفی بخاری نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل فیض حمید آرمی چیف بننا چاہتے تھے اس لئے وہ اطلاعات یا انٹیلی جنس کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ ہماری اسٹبلشمنٹ یا فوج سے کبھی لڑائی نہیں ہوئی، ہماری لڑائی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ نہیں تھی بلکہ لڑائی دو بڑے اہم عہدوں میں تھی، ایک آرمی چیف اور ایک وزیر اعظم۔ ان دو عہدوں میں لڑائی کی وجہ بد اعتمادی تھی۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کا اس وقت ایک دوسرے کے سا تھ چلنا ممکن نہیں تھا، دونوں کے درمیان معاملات میں اختلافات ہوچکے تھے۔
رہنما پی ٹی آئی ذلفی بخاری نے کہا کہ ہمیں یا کسی بھی پارٹی کو کبھی بھی کسی فرد کو سپورٹ نہیں کرنا چاہئے۔ تعلق عہدے سے رکھنا چاہئے نہ کہ شخصیت سے پاکستان کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجئے جب بھی کسی شخصیت پر انحصار کیا جائے نقصان ہوتا ہے چاہے وہ ہم ہوں ماضی میں کوئی اور ہو بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں۔ ہمیں انفرادی شخصیات پر انحصار کرنا چھوڑ دینا چاہئے۔ ہم کسی بھی شخصیت پر انحصار کریں یہ سیاسی پارٹی کی غلطی ہے۔
نجی چینل کے ٹاک شو کے میزبان کی جانب سے سوال کی گیا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومت ریفرنس لائی اور نومبر میں آرمی چیف کی تقرری روکنے کیلئے بھی جلسے وغیرہ کئے گئے۔ کیا یہ جنرل فیض کے انفلوئنس کی وجہ سے ہورہا تھا جس پر ذلفی بخاری نے کہا کہ نومبر میں کوئی ایسی ڈیل والی بات نہیں تھی نہ ہی کوئی توسیع کی بات تھی۔ میں نے ایک عمومی بات کی ہے مجموعی طور پر جب جنرل فیض ڈی جی آئی تھے تو یقینا تمام انٹیلی جنس ان کے پاس ہے تو جو بھی چیزیں ہو رہی ہیں ان کو وہ استعمال کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ہوں یا کوئی اور ہو یہ بات ظاہر ہے کہ جنرل کی بھی خواہش ہے کہ وہ سب سے ہائیئیسٹ پوزیشن پر پہنچے اس لئے یہ مینوپولیشن ہوتی ہیں۔ اس لئے میں نے آپ کوblanket statement دیا ہے کہ کبھی بھی انحصار شخصیت کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے، عہدے کے ساتھ ہونا چاہئے۔