ویسے تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ تحریک انصاف کے قائد جناب عمران خان کا کب سے یہ وطیرہ چلا آ رہا ہے کہ وہ اپنی پہلے سے کہی ہوئی باتوں سے اکثر پھر جاتے ہیں اور ان سے ہٹ کر متضاد خیالات کا اظہار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسے ان کا یو ٹرن لینا بھی کہا جاتا ہے۔ وہ خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایک بڑے قومی راہنما یا بڑی شخصیت کے لیے یوٹرن لینا ایک خوبی ہے۔ حالیہ دنوں میں جناب عمران خان اپنی اس خوبی کو اتنا سامنے لائے ہیں کہ سوچنا پڑتا ہے کہ قوم کی راہنمائی اور قیادت کی دعویدار شخصیت اس حد تک متضاد خیالات کا اظہار کر سکتی ہے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو انٹر ویو دیتے ہوئے جناب عمران خان نے جو کچھ کہا ہے ا سے ان کا یوٹرن ہی نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ ماضی قریب میں وہ رجیم چینج کے امریکی سازش کے جس بیانئے کی زور شور سے ترویج اور تبلیغ فرماتے رہے ہیں کی بھی یکسر نفی بھی قرار دیا جا سکتا ہے ۔
فنانشل ٹائمز کو انٹرویو میں آپ کا کہنا ہے کہ سائفر بیانیہ ماضی کاحصہ وہ پیچھے رہ گیا۔ میں اب امریکہ پر الزامات نہیں لگاتا، دوبارہ وزیرِ اعظم بنا تو امریکہ سے اچھے تعلقات رکھنا چاہوںگا۔ ماضی میں واشنگٹن سے ہمارا رشتہ آقا اور غلام کا رہا، اس میں زیادہ قصور پاکستانی حکومتوں کا تھا۔ یوکرین پر حملے سے ایک روز پہلے دورہ روس باعث ندامت تھا۔ فوج پاکستان کے لیے میرے مستقبل کے منصوبوں میں تعمیری کردار ادا کر سکتی ہے، اس میں توازن ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت عوام کی منتخب ہو اور اختیار کسی اور کے پاس ہو۔
جناب عمران خان کے ان فرمودات پر کسی کو کم ہی اعتراض ہو سکتا ہے۔ مسئلہ یا اعتراض اس بات کا ہے کہ اپریل 2022ءمیں اپنے خلاف تحریک عدم اعتمادکی کامیابی کے نتیجے میں حکومت سے محرومی کے بعد جناب عمران خان کن خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ پہلے تو انھوں نے اسلام آباد میں ایک جلسہ عام میں سادہ کاغذ لہراتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ اس میں وہ تفصیل موجود ہے جس کے تحت ان کی حکومت کو ختم کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ پھر انھوں نے قوم سے اپنے خطاب میں یہ انکشاف کیا کہ ان کی حکومت ختم کرنے کے لیے امریکہ میں سازش تیار کی گئی جس کی تفصیل امریکہ میں اس وقت متعین پاکستانی سفیر نے ایک سائفر (خفیہ مراسلے) کی صورت میں بھجوائی۔ جناب عمران خان نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ مسلسل امریکی سازش کے اس بیانےے کا پرچارک بھی کرتے رہے اور اس کے ساتھ اپوزیشن جماعتون اور مقتدر طاقتوں (ملٹری اسٹبلشمنٹ ) کو اس سازش کا آلہ کار ہونے کا منفی پروپیگنڈہ بھی جاری رکھا ۔ فوجی ترجمان کی طرف سے ایک سے زائد بار انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں سائفر کے معاملے کو زیرِ غور لایا گیا اور اس میں سازش کا کوئی پہلو سامنے نہیں آیا تھا۔ امریکی وزارتِ
خارجہ کے انڈر سیکرٹری عہدے کے ایک اہلکار نے پاکستانی سفیر سے ملاقات میں کچھ ایسی گفتگو کی جسے زیادہ سے زیادہ سفارتی آداب کے منافی سمجھا جا سکتا ہے جس پر اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کو احتجاجی مراسلہ دینا کافی سمجھا گیا ہے۔ تاہم جناب عمران خان اس طرح کی وضاحتوں کے باوجود امریکی سازش کے بیانےے پر قائم رہے۔ اس دوران ان کی اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے گفتگو کی ایک آڈیو بھی سامنے آ گئی جس میں وہ اعظم خان سے یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ہم نے سائفر کے معاملے پر کھیلنا ہے ، کھیلنا ہے۔ اعظم خان جواباً انھیں یہ کہتے ہیں کہ وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ میٹنگ کی جائے اور وہ اس میٹنگ کے اپنی مرضی کے منٹس لکھ لینگے۔
ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ امریکی سازشی بیانیے یا سائفر کے معاملے میں جب اتنی تفصیلات سامنے آ گئی تھیںتو پھر عمران خان کو اس بیانیے کے بارے میں خاموشی اختیار کرکے اس سے دستکش ہو جانا چاہیے تھا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ وہ اپنے منفی پراپیگنڈے اور امریکی سازش کے بیانئے پر بدستور قائم رہے۔ اب اچانک ان کو کچھ خیال آیا یا ان کی کایا کلپ ہوئی کہ فنانشل ٹائمز کو دیئے گئے انٹریو میں نا صرف انھوں نے امریکی سازشی بیانئے سے دستبرداری اختیار کی ہے بلکہ امریکہ سے دوستی کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ جناب عمران خان کب تک اپنے اس بیانئے پر قائم رہتے ہیں اور اس سے پیچھے نہیں ہٹتے یا یوٹرن نہیں لیتے۔ جناب عمران خان کے یوٹرن لینے کی بات چلی ہے تو ایک اور اہم معاملہ جس کے بارے میں جناب عمران خان مسلسل کئی ہفتوں تک تند و تیز بیان بازی کے بعد پسپائی اختیار کرتے یا دوسرے لفظوں میں یوٹرن لیتے دیکھائی دیتے ہیں وہ ان کے آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں سامنے آنے والے نئے مو¿قف کا اظہار ہے۔ لاہور میں سینئر صحافیوں سے گفتگو میں جناب عمران خان نے ارشاد فرمایا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر ہم پیچھے ہٹ گئے ہیں اور بیٹھ کر یہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ جو کرنا چاہتے ہیں کریں ۔ نواز شریف چاہتا ہے کہ ایسے چیف کو تعینات کرے جو ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔ لیکن کوئی بھی آرمی چیف عوام کے مفادات کے خلاف نہیں جاتا۔ جناب عمران خان کے مو¿قف میں یہ تبدیلیاں ایسی نہیں ہیں جو انھوں نے آسانی کے ساتھ یا خوش دلی کے ساتھ اختیار کی ہوں اگر وہ آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور اسے وزیرِ اعظم کا اختیار سمجھ لیا ہے تو یہ ان کے لیے ایک طرح کا حالات کا جبر ہے اس لیے کہ آئین و قانون کے تحت آرمی چیف کے تقرر کا اختیار وزیرِ اعظم کے پاس ہے اور وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف ہیں نہ کہ جناب عمران خان ، لہٰذا یہ تقرری میاں شہباز شریف نے ہی کرنی ہے۔
جناب عمران خان نے آگے چل کر اور کتنے یوٹرن لینے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتالیکن توشہ خانے سے لیے جانے والے تحائف جن میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے انتہائی قیمتی گھڑی کا تحفہ بھی شامل ہے کو بیچنے کے حوالے سے جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں ان کو سامنے رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ جناب عمران خان اور ان کے فواد چوہدری اور زُلفی بخاری جیسے ساتھیوں کو اس بارے میں اپنے پہلے سے اختیار کیئے ہوئے مو¿قف پر قائم رہنا انتہائی مشکل ہوگا بلکہ اور کتنے یوٹرن بھی لینے ہونگے۔ جیونیوز کے انتہائی مقبول پروگرام "آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ"میں میزبان شاہ زیب خانزادہ نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے دی جانے والی گھڑی ، انگوٹھی، قلم اور کف لنکس کو دوبئی میں ایک شخص عمرفاروق ظہور کے ہاتھوں بیچنے کی جو تفصیلات پیش کی ہیں ان کو رد کرنا آسان نہیں ہے۔ یقینا یہ تفصیلات انتہائی ہوشربا ءہیں اور ان سے جناب عمران خان کی مشکلات میں ہی اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ ان کی امانت ، دیانت اور صداقت پر بھی بڑھ چڑھ کر اعتراضات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ کہاں کی امانتداری ہے کہ آپ توشہ خانہ کے تحائف کی اپنے زیرِ اثر لوگوں سے قیمت کا تعین کروائیں پھر وہ تحائف اپنے قبضے میں لیں ، ان تحائف کو اپنے بندوں کے ذریعے فروخت کریں اور پھر تحائف کی متعین کردہ قیمت کا صرف پانچواں حصہ قومی خزانے میں جمع کروائیں اور چار حصے یعنی 80فی صد خود سمیٹ لیں۔
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں!