پاکستان کورونا سے نکلا تو ڈینگی میں جا پھنسا۔ دونوں سے نمٹتے سانس لینے کی مہلت نہ تھی کہ پس منظر میں سیلاب کا عذاب ایک تہائی پاکستان پر امڈ آیا۔ کثیر آبادی اس کی لپیٹ میں جان وتن کا رشتہ برقرار رکھنے کی آزمائش میں گھر گئی۔ گھر، خاندان، فصلیں اجڑ گئیں۔ معاشی آزمائش نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس سے نمٹنے کو جو قومی ہم آہنگی، دردمندی دلسوزی، وحدت اخوت درکار تھی اس پر مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق نہایت بے دردی سے سیاسی ہنگامہ عظیم برپا کر دیا گیا۔ جسے بیان کرنے کو الفاظ تھوڑے پڑ گئے۔ مارچ کیا ہوا، فتنہ، فساد، غل غپاڑہ، جنجال، وبال، بگولا، انتشار، بلوہ، آفتِ جان بن گیا پوری قوم کے لیے۔ سوشل میڈیا، وی لاگرز، ٹی وی چینلز پر اینکرز تجزیہ نگار مل جل کر سوال داغتے، بھانت بھانت کی بولیاں بولتے دماغ کی چولیں ہلا ڈالتے ہیں۔ افواہوں کی گرم بازاری، قیاس آرائیوں کے مرغولے فکری سموگ بن کر فضا کو مزید دھواں دھواں کرتے ہیں۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ فواد چودھری نے فرمایا تھا: ’باربار تاریخیں (مارچ کی) دے دے کر انہیں ہم تھکا تھکا کر ماریں گے۔ پاکستان سے زیادہ بڑے مظاہرے لندن میں ہو رہے ہیں۔‘ تھکاکر کسے مار رہے ہیں؟ عوام ادھ موئے ہوچکے ہیں۔ تاجر رو رہے ہیں کہ کاروبار ٹھپ ہوگئے۔ تعلیمی ادارے کھپ گئے کہ اچانک چھٹی دینی پڑتی ہے، راستوں کی بے ڈھب بندش تعلیم کا ناقابل تلافی نقصان کر رہی ہے۔ (ویسے تعلیم کی ضرورت ہی کیا ہے۔ انگریزی پر اتنی دسترس کہ موبائل فون استعمال کرنا سیکھ لیں۔ اور کرکٹ کھیلنا یا تماشائی بن کر گلے پھاڑنا آ جائے۔ ترقی کے یہی دو پیمانے ہیں۔) اہل مارچ کے لیے کھلی چھٹی سماں عجب پر اسراریت کا حامل ہے۔ راولپنڈی میں سڑکیں بلاک کرکے نتیجہ؟ ایمبولینسوں میں مریض رلتے، مہنگے پٹرول کے ساتھ شہری چار چار گھنٹے کی خواری اٹھاکر پندرہ بیس منٹ دور منزل پر پہنچتے ہیں۔ مار چیئے کیا کر رہے ہیں؟ سڑکیں بلاک کرکے پی ٹی آئی کے رہنما، وزیر راجہ بشارت سڑک پر کرکٹ کھیل کر غریب، بے بس، مجبور قوم کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ احساسِ ذمہ داری کا فقدان اور ظلم کی انتہا ملاحظہ ہو! پھر اسی دوران پی ٹی آئی کے خاندان مری روڈ پر کیمپ لگاکر پکنک، پارٹیاں مناکر پاکستان کی ترقی، استحکام کو چار چاند لگاتے رہے! کمال تو یہ ہے کہ ان تماشوں کو عدلیہ نے ’جمہوری حق‘ قرار دے کر سنگ مقید، سگ آزاد فیصلے صادر کردیے مسلسل! ہم اگر عرض کریں گے توہینِ عدالت ہوگی! تحریکِ انصاف اور فراہمی¿ انصاف والے ہمیں تگنی کا ناچ نچاکر محظوظ ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے وہ کرکٹ سڑکوں پر کھیلیں، یہ ان کا حق ہے، حکومت کا کام ہے انہیں کیچ آؤٹ کرنا۔ یوں بھی عدلیہ کو کون سا ٹریفک میں پھنسنا ہوتا ہے۔ آٹے دال کا آسمان سے باتیں کرنا بھاؤ ہمارے بڑوں کو کہاں معلوم ہوتا ہے۔ سو یہ ہماری شامتِ اعمال ہے جس پر قومی یوم استغفار برائے نجات کی ضرورت ہے۔ نہ صرف ملکی فضا مکدر ہے، امریکا، سعودی عرب کی گھرکیاں، مشورے، حکم بھی سننے ہوتے ہیں۔ کہاں کی آزادی، کون سی قومی غیرت! ناحق ہم مجبوروں پر ہے تہمت خودمختاری کی! ایک دھرنے میں چینی دورہ منسوخ ہوا، اور اربوں کا نقصان اٹھایا۔ اب سعودی روٹھ گئے افراتفری پر یا حکم عدولی پر اور بدلے میں مزید سرمایہ کاری کے دروازے بند کردیے دورہ منسوخ کرکے۔ دست وگریباں، اوئے توئے کا شور مچاتے طوفان کے بیچ مہمان تو دروازے سے ہی پلٹ جایا کرتے ہیں۔ سو یہ ہے ہمارا آج کا پاکستان اور جلے پاو¿ں کی بلی کی طرح سڑکیں ناپتے اپریل سے آج تک کرسی طلب ہمارے بہی خواہ! المیہ تو یہ ہے کہ ہمارا یہ سراسر گھر کا معاملہ عالمی سطح پر اچھالا جا رہا ہے اور ہم نتائج بھگتنے کو بیٹھے ہیں۔ جرمن اینکر کے تابڑ توڑ سوالوں پر بوکھلائے خان صاحب کی سبکی ہوئی۔ وال سٹریٹ جرنل کے ہندو کالم نگار سد آننددھیوم نے اپنے تجزیے میں (10 نومبر) عمران خان کا فوج کو آڑے ہاتھوں لینے کو موضوع بناکر پاکستان کے خلاف اپنا بغض خوب نکالا ہے۔ یہ بھی فرمایا ہے کہ 70 سالہ سابق کرکٹر کی خودستائی اور تفاخر، ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دینے کا ذوق پہلے ہی ایک انتشار کا شکار، متلاطم قوم کو مزید افراتفری میں جھونک دے گی۔ نیز بھاشن دیا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں (بھارت؟) کو ایک ایٹمی قوت اسلامی مملکت کو عدم استحکام سے بچانے کو کساؤ کی ضرورت ہے۔
ہمیں مغربی دنیا کو ہر وقت منہ اٹھا اٹھاکر رہنمائی، مدد (اور پیسہ) طلب نظروں سے دیکھنے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ مگر اب تو وہاں کے مناظر اتنے دیوانے اور بھیانک ہو چلے ہیں کہ انہیں فوری طبی (نفسیاتی) امداد کی ضرورت ہے۔ ملاحظہ فرمائیے نہایت ترقی یافتہ، تہذیب کے گہوارے کا حالِ زار! (فواد چودھری نے فخریہ کہا تھا کہ عمران خان کے لیے مظاہرے لندن میں ہو رہے ہیں!) برطانوی فضائی کمپنی برٹش ایرویز نے ’صنفی غیرجانبداری‘ (یا اندھے پن) کے نام پر اپنے مرد عملے، پائلٹ ودیگر حضرات کو میک اپ کرنے، بالیاں پہننے، کاجل، نیل پالش استعمال کرنے، مصنوعی پلکیں سجانے لگانے (اور پھر بھرے جہاز میں تالیاں مارنے؟) کی اجازت دی ہے۔ ساتھ ہی ہدایت دی اور ہلہ شیری دلائی ہے کہ: ’دلیر بنیں، خود پر (ہیجڑا بننے میں) فخر کریں! (مقامات فخر ملاحظہ ہوں!) امید ہے کہ ’رہنما اصول‘ (یعنی بے راہ روی اور بے اصولی بھرے اصول) جنس، صنفی شناخت، نسل، پس منظر اور ثقافت سے قطع نظر ہر ایک کے لیے قبول کیے جائیں گے۔ تاہم میک اپ کے لیے لطیف شیڈز استعمال کریں۔ (تاکہ لطیفہ زیادہ بڑا نہ بنے؟) اور اپنی قدرتی وضع قطع اور شکل کو برقرار رکھیں‘۔ کیا دیوانگی ہے۔ قدرتی وضع قطع؟ مونچھوں کے ساتھ
کاجل، نیل پالش، سرخی لگائے ہوئے؟ ہمیں تو ایسی خبریں سمجھنے کے لیے ’دماغی‘ اور ہضم کرنے کو ’پھکی، چورن‘ درکار ہوتا ہے، جسے یہ ’رہنما اصول‘ کہہ کر لاگو فرما رہے ہیں۔ دنیا کی قیادت ان ہاتھوں میں ہے جو بے صنف یا ذو صنف ہوگئے۔ یہ مرض صرف برطانیہ کو لاحق نہیں ہوا، تمام مغربی ممالک اسی نفسیاتی سوائن فلو میں گرفتار ہیں۔ دجال کے قدموں کی چاپ سنی جا سکتی ہے۔ جن کے پاس ان امراض کا تریاق تھا وہ خود اس شفا کے خزانے پر سانپ بنے بیٹھے ہیں۔اصلا ً عالمی قیادت بدلنے کی ضرورت ہے۔ کیا غضب ہے کہ اپنی بالادستی اور اقتدار کے لیے مخالفین کو زیر کرنے کے ہمہ نوع حربوں کا نام سیاست ہے۔ اگر اہل ایمان، عدل انصاف اور حق کی بالادستی کے لیے باطل پر اقتدار قائم کرنا چاہیں تو وہ تعصب اور مذہبی جنون ہے۔ یعنی شخصی جنون پر ملک الٹ دو۔ ایمانی جذبہ انتہاپسندی ہے۔ دہشت انگیزی ہے۔ اللہ کا غضب عالمی چودھریوں پر بپھر بپھر کر طوفانوں کی صورت قہر برساتا ہے۔ نومبر کے پہلے عشرے میں پے درپے تیسرا شدید سمندری طوفان آیا ہے فلوریڈا (امریکا) کے مشرقی ساحل پر۔ یاد رہے کہ 2001ء(جنگِ افغانستان) کے بعد امریکا کے طول وعرض میں موسمیاتی بم مسلسل برسے ہیں۔ فلوریڈا میں امریکی تاریخ کا مہنگا ترین، بدترین طوفان کترینہ تھا (2005ئ)، 5 درجے کا، جس نے ہمہ نوع نقصانات کے ریکارڈ توڑے تھے۔ ہر طوفان پر ہم نے دیکھا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایسی شدید تباہی پہلے نہیں دیکھی۔ مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ نہ ہی مکافاتِ عمل کے اصول سے واقف ہیں۔ اب بھی ساحل پر شاندار خوبصورت گھر کھلونے بنے الٹے اوندھے پڑے ہیں۔ کتنے ہی سیدھے سمندر میں جا پڑے۔
شاندار رہائشی بلند وبالا بلڈنگیں خطرے میں گھری (بنیادیں ہل گئیں) کھڑی ہیں۔ 2 لاکھ 40 ہزار ڈالر کی بنائی حفاظتی دیوار طوفان نے ڈھا دی۔ ہر طرف کچرا ہی کچرا ہے۔ شاخ نازک کا ناپائیدار آشیانہ تباہی کی نذر ہوتا دیکھا جاسکتا ہے۔ خوفناک بپھری سمندری لہریں، کڑک گرج چمک، سائنس ٹیکنالوجی کے چکناچور بت دیکھ کر بھی شہ رگ سے قریب رب کو پہچاننے سے انکاری ہیں۔ اور ہم ان کے اسیر اور مرعوبیت سے ادھ موئے ہوئے رہتے ہیں! امریکا اور ہم، (فرنٹ لائن اتحادی) پر یکساں سیلابی موسمی حالات کا کوڑا برستا رہا۔ ادھر مسکین لاچار سمجھے جانا والا افغانستان 15 اگست 2021ءسے آج تک ہمہ نوع عالمی تنہائی کاٹ کر بھی کسی معاشی تباہی سے دوچار نہ ہوا۔ ڈالر آج بھی 88 افغانی پر کھڑا ہے۔ قیادت، امانت ودیانت اور اخلاص کی بنیاد پر عوام کی فلاح وبہبود پر جتی ہوئی ہے۔ گداگری کا سدباب کرکے مقامی اور عالمی بھیک اور کشکول کی ذلت سے نکل آیا ہے۔ ہم نظریں چرا رہے ہیں، یہ ماڈل دیکھنے اور سبق سیکھنے میں حرج ہی کیا ہے!
سرِ نیاز ترا اور آستانہ غیر؟
ترا مقام یہ ظالم! ترا مقام نہیں