خوشبو وہ جو دل کو بھائے۔ وہ خوشبو جو کاٹ کھائے ، ڈاکٹر کے پاس لے جائے ، ہنسنے والوں کور لائے ، دل بھی دکھائے اور اذیت پہنچائے ، اس سے بہتر ہے کہ کسی نسوار بیچنے والے کی دوکان کے پاس سے گزرے، آہستہ آہستہ.... رفتار تیز ہوگی تو آپ اس مزے سے محروم رہیں گے جو نسوار نہ کھانے والوں کو نسوار کی دوکان پہ بیٹھ کے محسوس ہوتا ہے۔
سانس لے تو ہوا میں موجود سب کچھ بذریعہ ناک سمیٹ لے۔ ویسے نسوار بھی اب ہماری روائتی زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہے.... جہاں ”چار شریف لوگ“ بیٹھیں گے، نسوار کا ذکر ہوگا ....”جہاں پٹھان وہاں نسوار “....یایوں کہہ لیں کہ جہاں ”نسوار وہاں پٹھان“....
امریکہ والے ایک عرصہ تک خلیل جبران کی مشہور ترین کتاب ہر سال کرسمس کے موقع پر آپس میں گفٹ کرتے رہے ہیں۔ کتاب کا نام ہے ”ٹوٹے ہوئے پر“ میں نے بھی یہ کتاب پڑھی ہے۔ ایسی ہی تحریریں ہمارے ہاں مرحوم مرزا ادیب نے ”صحرانورد“ کے خطوط میں لکھی ہیں۔ شرمندگی کی بات ہے کہ ”صحرا نورد کے خطوط“ بازار میں دستیاب نہیں.... ایسے ہی پشتو بولنے والے دوستوں کو چاہیے کہ ہر خوشی کے موقع پر آپس میں نسوار کی ڈبیاں تقسیم کریں.... نسوار لو نسوار دو، اس سے پیار بڑھتا ہے میرے رنگ و نقشہ اور حلیہ سے متاثر ہو کر کئی پٹھان دوستوں نے مجھے نسوار کی ڈبیہ بطور تحفہ پیش کی.... میں نے نسوار شاپر میں ڈال کر دوسرے دوستوں کو بھیج دی اور ڈبیہ خود رکھ لیں.... میرا موڈ ٹھیک ہو.... کوئی اچھی خبر سن لوں یا ڈھیر سارے آم کھا کر فارغ ہوا ہوں یااچانک دفتر سے چھٹی کی اطلاع مل جائے یا پھر پتہ چلے کہ آج شام کسی دوست کے ہاں کھانے پہ جانا ہے یا بجلی کا بل کسی شریف کلرک کی ٹائپنگ مسں ٹیک ( غلطی ) سے کم آ جائے تو میں دیوار کے ساتھ اچانک ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہوں.... نسوار کی ڈبیہ پکڑتا ہوں اور اس پر لگے شیشے کی مدد سے اپنے منہ کا جائزہ لیتا ہوں۔ پورا منہ نسوار والی ڈبیہ میں اک ساتھ دیکھنا چاہوں تو افسوس ہوتا ہے۔ منہ پورا نہیں آتا اس شیشے میں ....پھر میں کبھی آنکھ دیکھتا ہوں.... کبھی کبھی آنکھ مارنے کو بھی دل چاہتا ہے۔ میں ادھر ادھر دیکھتا ہوں کوئی پاس تو نہیں، کوئی آ نہ جائے۔ جب اطمینان ہوتا ہے کہ کوئی آس پاس نہیں تو شیشے میں آنکھ مار کے دیکھتا ہوں۔ دائیں آنکھ سے آنکھ مارنے کا عمل کیا اور پھر بائیں آنکھ نسوار کی ڈبیہ میں فٹ کی اور بائیں آنکھ سے آنکھ بند کر کے، جیسے کیمرے میں تصویر اتارنے کا عمل ہو.... دائیں آنکھ سے ماری گئی آنکھ کا بائیں آنکھ سے جواب دیتا ہوں.... پھر میں غور کرتا ہوں نسوار کی ڈبیہ سامنے رکھ کے کہ مونچھوں کی کیا پوزیشن ہے۔ کبھی دائیں مونچھ بڑی کبھی بائیں چھوٹی لگتی ہے.... جب دونوں کو اکٹھا دیکھنا چاہتا ہوں تو شیشہ چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ پھر میں نسوار کی ڈبیہ میں اپنے دانت دیکھتا ہوں.... غصہ آتا ہے کہ مہنگی سے مہنگی ٹوتھ پیسٹ خریدی جس میں انھوں نے خوبصورت سے خوبصورت لڑکی اشتہار میں دکھائی مگر کوئی بھی ٹوتھ پیسٹ میرے دانتوں میں مثبت تبدیلی نہ لا سکی....
ہاں اب تین چار دانت منہ میں اپنے نہیں ہیں۔ میں نے خود سے بات کی.... خود سے سوال کیا اور خودہی جواب آیا کہ شکر ہے کمال مہارت سے میں نے چار دانت اپنے دانتوں کے ماہر دوستوں سے ملی بھگت کر کے چپکے سے منہ میں فٹ کروا لیے.... کسی کو پتہ ہی نہیں چلا.... میں نے نسوار کی ڈبیہ میں اپنے منہ کو ہر زاویہ سے چیک کیا اور خوش ہوا کہ اس صدی میں دو ہی اچھی چیزیں ایجاد ہوئی ہیں ایک ڈسپرین کی گولی اور دوسری نوار کی ڈبیہ ....پھر سوچا کہ نسوار کا بذات خود کیا مرتبہ و مقام ہے.... چونکہ میں نے کبھی چکھی نہیں اس لیے جواب نہ دے پایا۔ ویسے جو لطیفے نسوار کے حوالے سے بنے ہیں ان سے لگتا ہے کہ مفید ہوتی ہوگی.... میں نسوار کی ڈبیہ سے بہت متاثر ہوں۔ میرا دل چاہا....اپنی ملنے والی خواتین کو تحفے میں اب اک نسوار کی ڈبیہ پیش کروں اور انھیں نسوار کی ڈبیہ استعمال کرنے کا طریقہ بھی بتاؤں کیونکہ نسوار کی ڈبیہ سے استفادہ کھڑے ہو کر چلتے پھرتے یا لیٹ کر نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے شرط ہے کہ آپ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ جائیں۔ دیوار البتہ جیسی بھی ہو چلے گی۔ بس بیٹھنے کا طریقہ آپ کو آنا چاہیے۔ اس بار میں بکرا عید پر اپنی ملنے والی خواتین کو تحفے میں نسوار کی ڈبیہ پیش کروں گا اور دعا میں لوں گا اک سریلی اور دل لبھانے والی مسکراہٹ بطور شکریہ۔
ویسے ملکی حالات اور طالبان کی آمد اور پھر افغانستان سے سرحدی تنازعات پر اور تو پتہ نہیں کوئی نقصان ہوا یا نہیں لیکن میری اطلاع کے مطابق نسوار کا کاروبار بڑی حد تک متاثر ہوا ہے۔ شہری علاقوں میں نہایت خوبصورت نسوار کی ڈبیہ بنانے والے بھی اس جنگی صورت حال کے باعث ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ جب یہ شرانگیزیاں کم ہوں گی تو امید ہے یہ کاروبار خوب پھلے پھولے گا۔ شہر شہر گاو¿ں گاو¿ں نسوار کی ڈبیہ کے چرچے ہوں گے۔ مجھے وہ مشہور گانا بھی یاد آرہا ہے:
”پشاور سے میری خاطر نسوار کی ڈبیہ لانا
او.... دلبر جاناں !“
جو مزا نسوار میں ہے
نہ موٹر میں نہ کار میں ہے
ویسے اس کے ہم پلہ شعر ہمارے دوست ملک منظور حسین آف راج گڑھ سناتے ہیں۔
جو مزہ ادھار میں ہے
کسی بزنس نہ کاروبار میں ہے
میں نے صنوبر خان سے نسوار بننے کا طریقہ معلوم کیا تو اس نے راز داری سے میرے کان میں بتایا اور ساتھ یہ وعدہ بھی لیا کہ یہ نسوار بنانے کا طریقہ آپ کسی اور کو مت بتائیے گا ورنہ اس کے نتائج کی ذمہ داری آپ پر ہوگی اور ممکن ہے آپ کسی خود کش بم حملے میں شہید بھی کر دیے جائیں۔
میں نے چونکہ وعدہ کر لیا ہے اس لیے میں آپ کو یہ بات بالکل نہیں بتاؤں گا کہ نسوار کیسے بنتی ہے.... ورنہ شاید آپ کل کلاں کو نسوار کھانے کا ارادہ کریں اور میری وجہ سے نہ کھا پائیں.... سوری میں یہ رسک نہیں لے سکتا۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ میں آپ کو نسوار کھانے پر اکسارہا ہوں۔ بہر حال بات شروع ہوئی تھی خوشبو سے اور چل نکلی نسوار اور نسوار کی خوبصورت ڈبیہ کی طرف.... میں نے نسوار کے حق میں یہ تحریرلکھ لی تو یاد آیا کہ دوست احباب کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ میں شاید عنقریب نسوار کابزنس کرنے والا ہوں۔ اس لیے نسوار اور نسوار کی ڈبیہ کے لیے اس قدر ”معلوماتی مضمون“ لکھ مارا....حالانکہ کچھ باتوں سے انسان بتانا کچھ چاہتا ہے لوگ کچھ سمجھ لیتے ہیں.... تازہ ترین اطلاع کے مطابق انگلینڈ میں ایک بوڑھی عورت کو محض اس لیے سات سال قید کی سزا سنادی گئی کہ اس نے کئی سال تک اپنی بہوؤں کو گھر سے باہر نہ نکلنے دیا جبکہ ممکن ہے اس کی تینوں کی تینوں بہو ئیں شرمیلی ہوں، مشرقی انداز اپنانا چاہتی ہوں ....
کیونکہ کیسے ممکن ہے تین بہوئیں وہ بھی آج کے دور کی ایک عدد ساس کا ظلم کئی سال تک انگلینڈ جیسے ملک میں رہ کر سہتی رہی ہوں ....کیونکہ ساس اور بہو ہم وزن طاقتیں ہیں۔ دونوں کا ظلم مشہور ہے۔ یقین نہ آئے تو بھارتی ڈرامے دیکھ لو.... نہ کوئی کم نہ کوئی زیادہ ....سسرالی رشتوں کے انسانی صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں ایک لطیفے سے ملاحظہ کریں۔
تیز رفتاری کے جرم میں ایک صاحب کا چالان ہوا اور انھیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان صاحب نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا ” جناب والا ....میں تو صرف بیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جارہا تھا۔“ ”کیا ثبوت ہے.... اس کا“؟ مجسٹریٹ نے دریافت کیا۔” جناب والا! ثبوت کے طور پر اتنا جان لینا کافی ہے کہ میں اس وقت اپنے سسرال جا رہا تھا“....صوبہ خیبر پختو نخوا کے وزیر اطلاعات نے نسوار کی شان میں ”گستاخی“ کرتے ہوئے اسے بے جا اصراف کے زمرے میں ڈال دیا ہے۔ نسوار سے ” محبت“ کرنے والوں کا ردعمل ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ آپ پریشان نہ ہوں کیونکہ میں نے وزیر صاحب کی بات سنی ان سنی کر دی ہے ،کیونکہ میرے ایک پٹھان دوست کی سالگرہ ہے اور میں نے ان کو تحفہ کے طور پر پیش کرنے کے لیے نسوار کی ڈبیہ خوبصورتی سے پیک کروانی ہے۔ ”سنا ہے نسوار کی ڈبیہ تحفہ میں پیش کرنے سے محبت بڑھتی ہے“۔