تاریخی شہرت رکھنے والا جنوبی پنجاب کا صدر مقام سیاسی طور پر بڑی اہمیت کا حامل شہرہے، قومی سیاست میں اس خطہ کو خاص مرتبہ حاصل ہے، ہر سیاسی عہد میں ملتان کو شہر اقتدار میں حصہ بقدر جثہ ملتا رہا ہے،بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک میں شہر کے باسیوں نے قابل ذکر کردار ادا کیا تھا، اس لئے سیاسی مذہبی، جماعتیں یہ محسوس کرتی ہیں کہ شہر میں مذہبی ووٹ بنک خاصی تعداد میں موجود ہے، ہر قیادت اِسی لئے مذہبی طبقہ کو سیاسی و انتظامی فیصلہ جات میں نظر انداز نہیں کرتی ہے، ایسے وقت میں جب اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سرکار سے نبردآزما ہے، تو امیر جماعت اسلامی نے بھی ضروری سمجھا کہ عوام بیداری مہم کا آغاز کیا جائے،اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ پی ڈی ایم سیاسی اتحاد میں اِنکی جماعت شامل نہیں ہے۔
گوجرانوالہ، راولپنڈی اور فیصل آباد کے بعد پہلی دفعہ امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے قیم اور نائب امراء جماعت کے ساتھ تین دن کا پڑاؤ شہر ملتان میں ڈالا، اس دوران انھوں نے تمام شعبہ ہائے زندگی کے موثر افراد سے ملاقاتیں کیں، اپنا موقف پیش کرتے ہوئے جماعت اسلامی میں شرکت کی دعوت دی اس وقت جب عوام مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں،سرکار سے لگائی گئی اُمیدیں دم توڑ رہی ہیں اپوزیشن جماعتوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ حقائق سے آگاہ کرنے کے لئے عوام کے درمیان موجود ہوں۔
امیر جماعت اسلامی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ملک کی بڑی پارٹیوں نے عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، ہر دور میں نیا نعرہ لگا، لیکن عوام کے دکھوں کا مداوا نہ ہوسکا نہ ہی روٹی ملی نہ کپڑا اور مکان، تبدیلی کا حشر سب کے سامنے ہے،عوام نے ہر دور میں قربانی دی مگر سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اس کے ساتھ ہاتھ کیا،زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو زوال پذیر نہ ہو، ان حالات میں جماعت اسلا می ہی اُمید کی ایک کرن ہے، قوم کو اب چاہئے کہ اسے ضرور آزمائے۔
امیر جماعت نے دعویٰ کیا کہ انکے تین سو سے زائد افراد پارلیمینٹ کے ممبراور اہم کمیٹیوں کے رکن رہے، کسی ایک کے دامن پر بھی بدعنوانی کا دبہ نہیں، سابقہ اورموجودہ ممبر ز میں کسی کا نام پاناما کیس، پنڈورا سکینڈل میں نہیں ہے ہم بھی اسی معاشرہ میں رہتے ہیں، جہاں دوسرے سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکن موجود ہیں۔
جماعت اسلامی صوبہ پختون خوا میں تحریک انصاف کے ساتھ بر سر اقتدار رہی ہے، سراج الحق اِس دور میں صوبائی وزیر خزانہ رہے، اس بابت سینئرصحافیوں اور کالم نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ میری کارکردگی کو عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے نمائندوں نے سراہا اور تحریری طور پر تحسین کی،میں کوئی آکسفورڈ کا فارغ التحصیل نہیں تھا، لیکن میں نے صوبہ کو قرض فری کردیا،حکومت محض چھ ارب ڈالر کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے، اتنی رقم تو اوورسیز پاکستانیوں سے مل جاتی ہے اگر حکمران طبقہ ایماندار ہو تو یہ زرمبادلہ 40 ارب ڈالر تک جاسکتا ہے، جب بھی قوم نے ہم پر اعتماد کیا،دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح ہم نے انھیں مایوس نہیں کیا، کراچی میں ہمارے مئیر نعمت اللہ مرحوم نے اس شہر کا نہ صرف خسارہ پورا کیا بلکہ شہر کاخزانہ بھر دیا باوجود اس کے کوئی نیا ٹیکس عائد بھی نہیں کیا۔ قانون سازی میں بھی ممبران کا کلیدی کردار سب کے سامنے ہے۔
جماعت اسلامی اس ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے، جس کے وابستگان میں 1400افراد پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل ہیں، موجودہ سرکار اپنے ماہر معیشت کی بڑی دعویدار تھی، یہ ماہر تو چھ ماہ بھی نہ چل سکے، تاحال وہ مانگے تانگے ماہرین سے کام چلا رہی ہے،مگر ہمارے پاس ایک ذمہ دار تربیت یافتہ ٹیم ہے، جس کی ایک جھلک قوم الخدمت فاونڈیشن کی صورت میں دیکھ چکی ہے، مختصر عرصہ میں اِسکی قیادت نے اسے دنیا کی پانچویں بڑی این جی اوز بنا دیا ہے، ہم بغیر اقتدار کے بلا امتیاز انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، ہم میں اور دوسری جماعتوں میں نمایاں فرق یہ ہے کہ ہم سیاست کو عبادت سمجھ کر تے ہیں جبکہ دیگر کے نزدیک یہ منافع بخش کاروبار ہے۔
سراج الحق نے اپنی ٹیم کے ساتھ مسلم لیگ نون، پی ٹی آئی، پی پی پی کے افراد سے بھی ملاقاتیں کی ہیں، جن میں صوبائی وزراء بھی شامل تھے، لیکن ایک سوال کا سامنا امیر جماعت کی ٹیم کو ہر جگہ کر نا پڑا،کہ عوامی سطح پر جماعت کو ان خوبیوں کے باوجود پذیرائی کیوں نہیں مل رہی، اس کا جواب نائب امیر جماعت محترم لیاقت بلوچ نے الخدمت فاؤنڈیشن کی ایک نشست میں یوں دیا کہ انسانی خدمت کا سیاسی انداز میں صلہ کم ہی ملا کرتا ہے، ہم الخدمت کے پلیٹ فارم سے سیاسی مقصد حاصل بھی نہیں کرنا چاہتے،انھوں عبدالستار ایدھی کے حوالہ سے ایک واقعہ سنایا کہ ایدھی کی شخصیت خدمت انسانی کا معتبر نام ہے،مگر کچھ اہل دل نے ایدھی محترم کو کونسلر کا الیکشن لڑنے پر آمادہ کر لیا،تو جس عوام کی وہ دن رات خدمت کرتے تھے اس نے انھیں صرف ستر ووٹ دئیے۔
محترم سراج الحق نے اپنی ٹیم کے ساتھ قیام کے دوران کم و بیش ستر پروگرامات میں شرکت کی، لیکن جس بات پر وہ زور دیتے رہے وہ آزادانہ اور شفاف الیکشن ہیں،صحافیوں سے گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ عوامی تنقید کے نتیجہ میں اسٹیبلشمنٹ کو اب اپنی غلطی کا احسا س ہو رہا ہے،اسکا مرتبہ اور مقام یہی ہے کہ وہ سیاسی معاملات سے بالکل الگ تھلگ رہے۔
قیم جماعت کی ایک نشست کا اہتمام جماعت کی برادر تنظیم اساتذہ کے ساتھ مکالمہ کی صورت میں تھا، امیر العظیم سے جب جماعت کی ناکامی کے متعلق سوالات کئے گئے تو انھوں نے فرمایا کہ جن لوگوں نے روٹی، کپڑا کا نعرہ لگایا وہ اس کی تکمیل میں کتنے کامیاب ہوئے، ماضی کے حکمران، موجودہ صورت حال آپ کے سامنے ہے، جماعت کا بڑا کریڈٹ اِسکی اخلاقی ساخت اور برتری ہے یہی احساس عوام بیدار مہم کا حصہ ہے،جماعت کو ناکام قرار نہیں دیا جاسکتا،جماعت کی کاوشوں سے عالمی سطح پر یہ اعتراف کیا جا رہا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،سید مودودیؒ نے کیمونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کی جو پیشن گوئی وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی ہے، اب دنیا کے سامنے اسلام کی حقانیت کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں،اس پیغام کو عالمی مقام تک پہنچانے میں کلیدی کردار جماعت اسلامی اور سید مودودی ؒ کا ہے، جن جماعتوں نے تین تین بار اقتدار لیا وہ کون سے عوامی میدان کامیاب ہوئی ہیں۔اِنکی قیادت کو بدعنوانی، لوٹ مار، منی لانڈرنگ جیسے الزامات اور قوم کو قرض کا سامنا ہے مگر جماعت اسلامی کا ایک بھی فرد اس فہرست میں شامل نہیں کیا یہ ہماری ناکامی ہے؟
جماعت کی قیادت اپنا پیغام کس حد تک پہنچانے میں کامیاب ہوئی،عوام بیدار مہم کے کیا اثرات اس شہر کے باسیوں پر مرتب ہوتے ہیں، فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا، لیکن ایک مطالبہ جماعت کے بہی خواہوں نے قیادت کے سامنے رکھا کہ جماعت کوئی مقبول عوامی نعرہ ضرور دے،جو جماعت کی شناخت بن جائے، دیکھنا یہ ہے کہ ملتان کے شہری جماعت کی ساکھ اور اخلاقی برتری کا کتنا بھرم رکھتے ہیں یا حسب روایت مفادات کی بھینٹ چڑھ کر کف تاسف ملتے ہیں۔