شاعر انقلاب کومداح آج بھی نہیں بھولے ۔ ان کی تحریریں آج بھی نوجوانوں کا لہو گرما رہی ہیں ۔ لفظوں کے جادوگر فیض احمد فیض 13 فروری 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ بچپن سے درس وتدریس سے وابستگی رہی ۔ انگریزی اور عربی میں ایم اے کیا۔ فیض احمد فیض کو چھ سے زائد زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔
انہوں نے اپنی شاعری میں محبت ، ہجر ، فراق ، اداسی ،معاشرے میں ظلم وستم اور نارواسلوک کو موضوع بنایا ۔ پرانی اور فرسودہ روایات سے بغاوت پر ان کو شاعر انقلاب بھی کہا جاتا ہے ۔
فیض نے اپنی شاعری میں مظلوم اور غریب طبقے کی ترجمانی کی حکومتی ایوانوں سے اختلاف کے باعث قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔
اقبال بانو کی آواز میں ان کی لکھی ہوئی غزل " ہم دیکھیں گے لازم کہ ہم ہی دیکھیں گے" کو دنیا بھر میں آزادی کی تحریک سے منسوب کیاجاتا ہے جبکہ ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں ان کی غزل " مجھ سے پہلی سے محبت میرے محبو ب نہ مانگ" عوام میں آج بھی بے حد مقبول ہے ۔
فیض احمد فیض کی آٹھ سے زائد کتابیں اورکئی شعری مجموعے مارکیٹ میں موجود ہیں ۔ فیض احمد فیض کو 1953 میں نگارایوارڈ،1962 میں لینن پیس پرائز،1990 میں نشان امتیاز سے نوازا گیا ۔
عہد ساز شاعر فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 کو 73 سال کی عمر میں انتقال کرگئے وہ لاہور میں آسودہ خاک ہیں ۔